وزیراعظم عمران خان کا بلین ٹری سونامی منصوبہ کے تحت ملک میں شہد کی پیداوار بڑھانے کے پروگرام کے اجراءکی تقریب سے خطاب

107

اسلام آباد۔21دسمبر (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے، سرسبز علاقوں میں درختوں کو کاٹ کر بڑی عمارتیں کھڑی کر دی گئیں، ماضی کی حکومتیں جنگلات کی اراضی سیاسی مقاصد کیلئے لوگوں کو لیز پر دیتی رہیں، ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے کوالٹی پر خصوصی توجہ دینا ہو گی، ملک میں زیتون کی پیداوار بڑھا کر خوردنی تیل کی درآمد پر اخراجات کم کر سکتے ہیں، شہد کی پیداوار بڑھانے کے منصوبہ سے مقامی لوگوں کو بہت فائدہ ہو گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پیر کو بلین ٹری سونامی منصوبہ کے تحت ملک میں شہد کی پیداوار بڑھانے کے پروگرام کے اجراءکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں جنگلات کے رقبہ میں تیزی سے کمی ہوئی ہے، ہم نے بحیثیت قوم اپنے دریاﺅں کو آلودہ کر دیا ہے، درخت کاٹ دیئے گئے ہیں، سندھ میں 70 فیصد زیر زمین پانی آلودہ ہو چکا ہے، فضاءمیں بھی بہت آلودگی ہے، سردیوں میں لاہور کی فضاءمیں آلودگی خطرناک حد سے بھی تجاوز کر جاتی ہے، سرسبز علاقوں میں درختوں کو کاٹ کر بڑی عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں، آئندہ نسلوں کیلئے سرسبز پاکستان چھوڑنے کیلئے تیزی سے منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنا ہو گا، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنا ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے جنگلات کی اراضی سیاسی مقاصد کیلئے لوگوں کو لیز پر دی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 20 سال میں ملک میں 70 فیصد جنگلات ختم کر دیئے گئے اور اینٹوں کے بھٹوں سمیت ان چیزوں کی ہم نے پرواہ نہیں کی جو فضاءکو آلودہ کرتی ہیں کہ ان کا کوئی متبادل حل نکالا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایسی حکومت جو لوگوں کی زندگیوں کا سوچتی ہے اگلے الیکشن کو نہیں دیکھتی، وہ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ سرسبز پاکستان انہیں دیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ لاہور میں ماضی میں لوگ نہر کا پانی پیتے تھے لیکن پھر وہ پانی بھی آلودہ ہو گیا، دریائے راوی بھی اب گندے پانی کا تالاب بن چکا ہے، ماضی کی حکومتوں نے آلودگی کے مسئلہ کی روک تھام کیلئے کچھ نہیں کیا، موجودہ حکومت ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے تاکہ جنگلات کا رقبہ بڑھایا جائے، دریاﺅں کو صاف کیا جائے اور فضائی آلودگی پر قابو پایا جائے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے درخت لگانے کی طرف توجہ دی اور ایک ارب درخت لگانے کا فیصلہ کیا، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور ورلڈ اکنامک فورم نے اس منصوبہ کی توثیق کی اور اس کی حمایت کی، خیبرپختونخوا میں جنگلات کے تحفظ اور فروغ کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے راستہ میں رکاوٹوں کو دور کیا گیا اور اس سلسلہ میں بھرپور عزم کی عکاسی کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ کندیاں اور چھانگا مانگا میں بہت بڑے جنگل تھے جو ختم کر دیئے گئے اور زمینیں سیاسی لوگوں کو لیز پر دےدی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ شہد کی پیداوار کیلئے جنگل کا استعمال ایک زبردست آئیڈیا ہے، اس منصوبہ سے مقامی لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی، شہد کی ہماری برآمدات بہت کم ہیں، پاکستان میں مختلف اقسام کے شہد کی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے، پاکستان میں 12 مختلف موسم ہیں اور شہد بھی ہم مختلف اقسام کے پیدا کر سکتے ہیں، اس سلسلہ میں حکومت مدد کر سکتی ہے لیکن برآمدات بڑھانے کیلئے کوالٹی کنٹرول کو بہتر بنانا ہو گا، پاکستان کا پھل اور سبزیاں ذائقہ میں بہت بہترین ہیں، ان کی برآمدات بھی بڑھائی جا سکتی ہے لیکن ہم ان کی برآمدات اس لئے نہیں کر سکتے کہ ان کی کوالٹی نہیں ہوتی، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو کوالٹی کنٹرول کیلئے مدد کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنی برآمدات میں اضافہ نہیں کریں گے تب تک ہماری آمدنی نہیں بڑھے گی، ہم نے ماحول کو بہتر بنانا اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہے اور درآمدات میں کمی لانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، انہیں روزگار کی ضرورت ہے، یہ منصوبہ روزگار کی فراہمی کی ضرورت بھی پوری کرے گا، کندیاں اور دیگر ایسے علاقے جہاں پر بارشیں کم ہوتی ہیں وہاں کے لوگوں کو اس منصوبہ سے روزگار ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سالانہ تین ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے، روپے کی قدر میں کمی سے درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں، اسی وجہ سے خوردنی تیل اور گھی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، 10 بلین ٹری سونامی منصوبہ میں زیتون کی کاشت پر توجہ دی جائے تو پاکستان خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافہ سے ملکی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اسے برآمد بھی کر سکے گا۔ دریائے سندھ کے دائیں جانب کوہ سیلمان رینج زیتون کی کاشت کیلئے بہترین علاقہ ہے، ان علاقوں میں بہت زیادہ غربت ہے، اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ناشپاتی کی پیداوار بڑھانے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسے بھی بلین ٹری منصوبہ کا حصہ بنایا جائے گا، اس سے ملکی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے شہروں کے بے ہنگم پھیلائو کو روکنا ہو گا، ہمارے شہروں کے ماسٹر پلان ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے شہر پھیلتے جا رہے ہیں، جب زرعی زمینوں پر آبادیاں بن جائیں گی تو پھر ہم اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے خوراک کا انتظام کہاں سے کریں گے، اب شہروں کے ماسٹر پلان بنائیں گے تاکہ اپنی زرعی زمینوں کو محفوظ بنا سکیں۔ تقریب سے وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل اور وزیراعظم کے معاوں خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے بھی خطاب کیا۔ یہ منصوبہ وزیراعظم کے کلین اینڈ گرین پاکستان وژن کا حصہ ہے اور پروگرام کے تحت ایسے پودے اور درخت لگائے جائیں گے جن پر شہد کی مکھیاں زیادہ بیٹھتیں ہیں جن میں کائوو، پھلائی، بیر، کیکر اور دیگر درخت شامل ہیں۔ تخمینے کے مطابق ملک میں سالانہ سات ہزار 500 میٹرک ٹن شہد کی پیداوار کیلئے 10 ہزار شہد کی مکھیاں پالنے والے تین لاکھ کالونیز استعمال کر رہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی، تربیت، سرٹیفکیشن اور معیار کو بہتر بنانے سے اس طرح کے اقدام سے شہد کی پیداوار 70 ہزار میٹرک ٹن تک بڑھائی جا سکتی ہے اور 70 ہزار میٹرک ٹن شہد سے تقریباً 35 سے 43 ارب روپے کی آمدنی ہو گی اور تقریباً 87 ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی، ”بلین ٹری ہنی“ منصوبہ وزارت موسمیاتی تبدیلی مختلف وزارتوں اور اداروں کے تعاون سے شروع کر رہی ہے اور اس کا مقصد ملک میں زراعت کو فروغ دینا ہے، ملک میں 23۔2022 ءتک توقع ہے کہ 10 بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت جنگلات کا رقبہ تقریباً 55 لاکھ ہیکٹر رقبے تک پھیل جائے گا، نیوٹیک اس سلسلہ میں مکھیاں پالنے والوں کو تربیت اور فنی معاونت کے ساتھ ساتھ پیداوار کے حصول میں مدد دے گی، سرٹیفائیڈ مکھیاں پالنے والوں کو کامیاب جوان پروگرام کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی شہد کی پیداوار کی سرٹیفکیشن کی ذمہ دار ہو گی۔ پروگرام کا آزمائشی منصوبہ آئندہ موسم بہار میں مخصوص مقامات پر شروع کیا جائے گا۔