وفاقی پی ایس ڈی پی میں پانی کی تین اور روڈ کی چار سکیمیں شامل کرنے پر وزیراعظم کے مشکور ہیں ۔ وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ

63

کراچی۔15جون (اے پی پی):وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں واٹر سیکٹر کی تین اور روڈ سیکٹر کی چار اسکیمیں شامل کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئندہ سال کے 1.73 کھرب روپے کے بجٹ میں 69.9 فیصد یعنی 1.199 ٹریلین روپے کے کرنٹ ریونیو اخراجات، 3.18 فیصد یعنی 54.5 ارب روپے کے کرنٹ کیپیٹل اخراجات اور 26.8 فیصد یعنی 459.65 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات ہیں۔ وزیراعلٰی سندھ نے کہا کہ 1.199 ٹریلین روپے کے کرنٹ ریونیو اخراجات (CRE) کو غیر ترقیاتی اخراجات نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کا 2.9 فیصد یعنی 35.360 ارب روپے کا مرمت اور دیکھ بھال (R&M) بجٹ ہے جو خود ترقیاتی بجٹ کا حصہ ہےاور مزید کہا کہ CRE کے پاس تعلیم اور صحت کے شعبوں اور BRT روٹس کیلئے بسوں کی خریداری پر 21.4 فیصد یعنی 256.605 ارب روپے کی گرانٹس اور سماجی تحفظ اور رائٹ آف قرضوں کیلئے رعایت، 14.5 فیصد یعنی 174.229 ارب روپے ملازمین کے ریٹائرمنٹ کیلئے فوائد، 12.3 فیصد یعنی 147.449 ارب آپریٹنگ اخراجات اور 42.5 فیصد یعنی 509.732 ارب ملازمین سے متعلق اخراجات ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ غیر ترقیاتی اخراجات کل بجٹ کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں لیکن اس کے باوجود انکی حکومت انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی مد میں 174.229 ارب روپے کا بوجھ صوبائی خزانے پر ہے اور اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور انکی حکومت ایک نیا پنشن پلان متعارف کرانے کی اسکیم پر کام کر رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ انکی حکومت الیکٹرک گاڑیوں کی مفت رجسٹریشن کی پیشکش کیلئے پالیسی تیار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا تیل کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں اس لیے ہماری حکومت الیکٹرک گاڑیوں کی مفت رجسٹریشن کی پیشکش کر رہی ہے جس کیلئے کابینہ کی منظوری کے بعد پالیسی کا اعلان کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری افسران کا 40 فیصد تیل کوٹہ کم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسران کا پیٹرول الاؤنس رقم کے لحاظ سے یکساں ہے لیکن اشیاء کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ (افسران) اپنے الاؤنس سے 40 فیصد کم تیل خرید سکیں گے لہذا غیر ترقیاتی اخراجات کل بجٹ کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔وزیراعلیٰ سندھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 23-2022میں کراچی کیلئے مجموعی ترقیاتی اخراجات 125 ارب روپے ہے۔ رقم اور اسکیموں کا بریک اپ دیتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی کی 750 مخصوص اسکیموں کیلئے 80.077 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے 60.686 ارب روپے 483 جاری اسکیموں کیلئے ، 19.390 ارب روپے 267 نئی اسکیموں کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ضلع اے ڈی پی سے 5 ارب روپے اور غیر ملکی امداد کے ذریعے 7 منصوبوں کیلئے 40.715 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں مسابقتی اور قابل رہائش شہر کراچی (Click)، کراچی نیبر ہڈ امپروومنٹ پروجیکٹ (KNIP)، ماحولیات کیلئے کرا چی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ (KWSSIP) فیز-I اور -II ، سوشل سیف گارڈز اور ڈیزائن اسٹڈیز، سالڈ ویسٹ ایمرجنسی اینڈ ایفیشنسی پروگرام (SWEEP)، بی آر ٹی ریڈ لائن کراچی کی تعمیر اورکراچی اربن موبلٹی پروجیکٹ – بی آر ٹی ییلو لائن منصوبے شامل ہیں۔ مراد علی شاہ نے تقریباً 32 بڑے منصوبوں کا بھی شمار کیا جن میں سیف سٹی 5 ارب روپے (اس کا پائلٹ حصہ اگلے سال مکمل ہوگا)، 12.19 ارب روپے کی لاگت سے ڈوئل کیریج وے منگھوپیر روڈ تا شاہراہ قذافی جبکہ 2022 کیلئے اسی منصوبے کیلئے 937.42 ملین روپے رکھے گئے ہیں، کراچی فش ہاربر کی تزئین و آرائش 1.6 ارب روپے جس کیلئے 309.6 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں اور 1 ارب روپے کی لاگت سے سٹارم واٹر ڈرین فیز II کی بحالی شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے خیرپور ضلع کے چھوٹے سے قصبے گمبٹ کو میڈیکل سٹی بنانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل ٹورزم کی ایک نئی اصطلاح ان شہروں کیلئے بنائی گئی ہے جہاں لوگ اپنے علاج کیلئے جائیں گے اور گمبٹ ہیلتھ کیئر سے متعلق ادارہ قائم کرکے ہر قسم کی طبی سہولیات فراہم کرے گا۔ صحت کے شعبے سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کے شعبے کیلئے 219.787 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں 196.453 ارب روپے غیر ترقیاتی اور 23.334 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 66.151 ارب روپے کی سنگل لائن گرانٹس مختلف اداروں، ٹرسٹوں اور این جی اوز کو دی جائیں گی جس میں پی پی ایچ آئی کو 11.481 ارب روپے ملیں گے (22-2021سے 40 فیصد اضافہ)، NICVD کیلئے 12.539 ارب روپے، SIUT کیلئے 10 ارب روپے (40 فیصد اضافہ)، GIMS کیلئے 6ارب روپے (50فیصد اضافہ)، JPMC روبوٹک سرجیکل سسٹم کی تنصیب کیلئے 594 ملین روپے، SMBBانسٹی ٹیوٹ آف ٹراما کراچی کیلئے 2.4 ارب روپے (20 فیصد اضافہ)، EPI ویکسی نیشن 3.5 ارب روپے (75فیصد اضافہ)، انسٹی ٹیوٹ آف انفیکشن ڈیزیز، نیپا کراچی کیلئے 1.09 ارب روپے، تھیلے سیمیا کے مریضوں کے مفت علاج کیلئے 290 ملین روپے (12 فیصد اضافہ)، بچوں کی صحت کی دیکھ بھال کے چار اداروں کیلئے 1.7 ارب روپے، CMCلاڑکانہ 50 بستروں پر مشتمل میڈیکل اور سرجیکل کیلئے موجودہ صحت کی سہولیات پر پلانٹس اور مشینری کیلئے 1 ارب روپے اور پی سی آر کٹس کیلئے ایک ارب روپے شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس وقت تھر بلاک ٹو سے 660 میگاواٹ کوئلے پر مبنی توانائی پیدا کی جا رہی ہے اور آئندہ سال کے آخر تک 2000 میگاواٹ کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں نہ صرف ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت ہے بلکہ وہ اپنی اضافی پیداوار برآمد کرکے زرمبادلہ کما سکتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کو کیسے استعمال کیا جائے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے 35 ارب روپے کی لاگت سے بنی سر وجیھر واٹر انفراسٹرکچر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا ہے جو کویت کی ایک سرکاری کمپنی کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت شروع کیا گیا ہے اور مزید کہا کہ ‘بہترین اختراعی اسلامی منتقلی اور پاکستان میں بہترین اسلامک ٹرانزیشن فنانسنگ’ پر منتقلی پردو ایوارڈز جیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انکی حکومت مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے کویت میں سرمایہ کاری کانفرنس بلانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ توانائی کے شعبے کو 32.92 ارب روپے دیئے گئے ہیں جس میں 2.55 ارب روپے ترقیاتی اور 30.37 ارب روپے کا غیر ترقیاتی بجٹ شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگلے مالی سال کیلئے توانائی کے پورٹ فولیو میں 6.992 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ الیکٹرسٹی مانیٹرنگ اینڈ ری کنسی لیشن سیل کراچی کو 1 ارب روپے، سندھ کول اتھارٹی کیلئے 100 ملین روپے اور ڈائریکٹوریٹ آف متبادل توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی (سولر) ہوا، فضلہ، بائیو ماس اور پانی وغیرہ کیلئے 22.470 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے مطابق گھریلو بائیو گیس کے سروے کیلئے 15.5 ملین روپے، گڈاپ ٹاؤن کو گیس کی فراہمی کیلئے 75 ملین روپے، کشمور، کندھ کوٹ، دادو، شکارپور، شہید بینظیر آباد، لاڑکانہ، تھرپارکر اور سکولوں کی سولرائزیشن کی 7اسکیموں کیلئے 250 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں، حیدرآباد اور ٹنڈو محمد خان اضلاع میں سولر پی وی کے ذریعے بنیادی صحت کی سہولیات کو بجلی بنانے کیلئے 50 ملین روپے اور 2 کیوسک تک سولر سسٹم ٹیوب ویل کی تنصیب کیلئے 100 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔مراد شاہ نے کہا کہ حیسکو/سیپکو، کے الیکٹرک، لوکل کونسلز، کے ڈبلیو ایس بی اور دیگر محکموں کے بجلی کے بلز کی واجبات کی ادائیگی کیلئے 21 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمارے ہاں 65 فیصد آبادی 35 سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر ضلع میں یونیورسٹیز یا یونیورسٹی کے کیمپس قائم کیے جائیں تاکہ وہ فنی تعلیم فراہم کر سکیں اور انکی حکومت پانچ سالہ آئی ٹی پالیسی کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔

مراد علی شاہ نے اعلان کیا کہ انہوں نے یونیورسٹیوں ،کیمپسز کے منصوبوں کیلئے 100 فیصد رقم مختص کی ہے تاکہ وہ ایک یا دو سال میں مکمل ہو سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تھر میں تھر ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ پہلے ہی کام کر رہا ہے اور اسے آئندہ مالی سال کے دوران ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بعض اہم شعبوں کا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کیلئے 326.687 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں 29.47 ارب روپے کا غیر ترقیاتی بجٹ اور 34.217 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ شامل ہے جس میں پرائمری تعلیم پر 93.9 ارب روپے، ثانوی تعلیم پر 50.8 ارب ، تعلیمی انتظامیہ کیلئے 45.7 ارب ، کالجز کیلئے 26.7 ارب ، ہائر سیکنڈری پر 20.5 ارب ، مڈل ایجوکیشن کیلئے 18.9 ارب ، یونیورسٹیوں کو 18.7 ارب ، طبی تعلیم کیلئے 10.5 ارب اور 6.3 ارب روپے تکنیکی تعلیم کیلئے گرانٹ شامل ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ ہر ضلع میں یوتھ سینٹرز بھی قائم کیے جا رہے ہیں جس کیلئے 100 فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ نوجوانوں کے مراکز میں آڈیٹوریم، لائبریری، ٹک شاپ، ٹی وی ہال، جم اور دیگر سہولیات ہوں گی جس کا مقصد ہمارے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیاں فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ (نوجوان) خود کو آئی ٹی انڈسٹری، مصنوعی ذہانت کے منصوبوں اور ادبی سرگرمیوں میں شامل ہوکر اپنی کفالت کر سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں واٹر سیکٹر کی تین اور روڈ سیکٹر کی چار اسکیمیں شامل کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا۔ واٹر سیکٹر اسکیم میں تین چھوٹے ڈیموں کی تعمیر شامل ہے اور K-IV کیلئے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

روڈ سیکٹر کی اسکیموں میں نواب شاہ سے رانی پور تک مہران ہائی وے کو دو رویہ شاہراہ بنانا شامل ہے، ہم اس اہم شاہراہ کو پہلے ہی بنا چکے ہیں لیکن اب اسے پی ایس ڈی پی کے تحت استعمال کیا جائے گا۔ دوسری سڑک منڈھ جامرو (ضلع سانگھڑ) سے ریگستان سے ہوتی ہوئی سکھر شاہراہ کی تعمیر، گھوٹکی میں اوباڑو تک سڑکوں کی تعمیر اور ٹنڈو آدم سے ٹنڈو الہیار تک دو رویہ شاہراہ بنانا ہے۔ مراد علی شاہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی حکومت نے اسلام آباد میں اپنے ساڑھے تین سال کے دور میں اپنے مقدمین کی جانب سے جاری اسکیم کیلئے بھی فنڈز جاری نہیں کیے تھے۔

پریس کانفرنس کے آغاز میں وزیراعلیٰ سندھ نے منگل کو سندھ اسمبلی میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی جہاں پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے پلے کارڈز اٹھائے ان کے سامنے اس وقت احتجاج کیا جب وہ اآئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر رہے تھے اوریہ احتجاج بد زبانی میں بدل گیا جو انہوں نے پی پی پی قیادت کے خلاف استعمال کیا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کیسے منتخب ہوئے یہ الگ کہانی ہے لیکن وہ اسمبلی کے کام میں سنجیدہ ہرگز نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے مرکز میں ان کی حکومت کو جمہوری عمل کے ذریعے ہٹایا گیا ہے پی ٹی آئی کے اراکین میں قیادت کا احساس ختم ہو گیا ہے۔
APP/