اسلام آباد۔7جنوری (اے پی پی):پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آر ایل این جی کی خریداری ، فروخت اور پالیسی سازی کے حوالے سے وزارت پٹرویم کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انجام سے قطع نظر قوم کے مفادمیں فیصلے کرنے پڑتے ہیں، پارلیمنٹ کی کمیٹیاں قواعد کے تحت بااختیار ہیں ، مالیاتی نظم و نسق سمیت دیگر امور کی نگرانی کے حوالے سے پی اے سی اپنے فرائض پورے کرے گی۔پی اے سی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان ابراہیم خان، راجہ ریاض احمد،مشاہد حسین سید،نورعالم خان ، حنا ربانی کھر،شاہدہ اختر علی ،اقبال محمد علی خان، شیخ روحیل اصغر،سردار ایاز صادق ، منزہ حسن ، سید حسین طارق سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں پٹرولیم ڈویژن کے 2019 -2020 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔ چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ آر ایل این جی ایک حساس معاملہ بن گیا ہے ۔ اگر ضرورت پڑی تو معاون خصوصی ندیم بابر کو بھی بلا لیں گے ۔ سابق سپیکر گوہر ایوب کے دور میں کمیٹیوں کے قواعد میں ترمیم کرکے با اختیار بنایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پٹرولیم منسٹری کی طرف سے سپیکر کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پی اے سی صرف آڈٹ اعتراضات تک ہی اپنا کردارادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جو ذمہ داری ہے پوری کریں گے۔ سیکرٹری پٹرولیم اسد حیا الدین نے کہا کہ پارلیمنٹ بااختیار ہے۔ ہمیں پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ہم سے ہر قسم کا سوال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت مقامی اور درآمدی دو گیسیں ہیں جبکہ ان کی قیمت میں فرق ہے۔ اسی سے طلب اور رسد میں فرق آتا ہے۔ جب دونوں گیسوں کو مکس کریں گے تو لامحالہ قیمت بڑھ جائے گی اور ہمیں گردشی قرضوں کا سامنا ہو گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس وقت ذرائع ابلاغ میں 122 ارب روپے کے نقصانات کی بات کی جا رہی ہے حالانکہ ان تین ماہ کے لئے ہم نے صرف 35 ارب کی ایل این جی خریدی ہے ۔اگر قیمت ہی صرف 35 ارب ہو گی تو 122 ارب کا نقصان کیسے ہو سکتا ہے۔ ایل این جی صرف ڈیمانڈ پر منگوائی جاتی ہے ۔ وہ بھی اس صورت میں ہمیں معلوم ہوا کہ گااس کی قیمت کو ن ادا کرنے کو تیار ہے۔ پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ اگر ضرورت تھی تونئے ٹرمینلز کیوں نہیں لگائے گئے۔ بروقت ایل این جی کیوں نہیں خریدی گئی۔ بروقت فیصلے نہ لینے کی وجہ سے 122 ارب روپے کے نقصانات کی بات ہو رہی ہے ۔ کمیٹی کی رکن منزہ حسن نے کہا کہ اصل مسئلہ پالیسی سازی کا فقدان اور بروقت طلب و رسد کا تعین نہ ہونا ہے۔ سردار ایازصادق نے کہا کہ کہ قطر گیس کے ساتھ پے اینڈ ٹیک کا معاہد ہ ہے ۔60 فیصد گیس کی خریدار آئی پی پیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ فروخت کے حوالے سے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ اس لئے نہیں کیا جاتا کہ سب کو معلوم ہے کہ جو بھی فیصلہ کرے گا نیب اس کو پکڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب کتنے لوگوں کا کمیشن بٹھائیں گے، یہ معاملات کابینہ میں جانے چاہئیں۔ سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ گیس کی خریداری پیپرا قوانین کے تحت کی جاتی ہے۔ مینوفیکچررز کے علاوہ کچھ ٹریڈنگ کمپنیاں بھی ہیں جن سے گیس خریدی جاتی ہے۔ 2022تک 66 فیصد آر ایل این جی کی کھپت پاور پلانٹ میں ہو گی۔ اس کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو جائے گی۔ آر ایل این جی ، سی این جی سیکٹراور بعض دیگر مراعات یافتہ صنعتوںکو بھی دی جاتی ہیں۔ اوگرا نے دو نئے ٹرمینل کا لائسنس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیس کوبرینٹ کے ساتھ منسلک کرنے کی بجائے گیس کے ساتھ ہی منسلک کرنا چاہیے تھا۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ گیس خرید لی گئی مگر اس کی فروخت کاکوئی طریقہ کار نہیں بنایا گیااور اس بات کا تعین بھی نہیں کیا گیا کہ سبسڈی کی رقم کون ادا کرے گا۔ سید نوید قمر نے کہاکہ ہماری آئل اینڈ گیس کمپنیاں کب تک سبسڈیز کا بوجھ برداشت کریں گی۔ مشاہدحسین سید نے کہا کہ کہیں فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ نیب کاخوف تو نہیں ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ آر ایل این جی کا بڑاصارف پاور سیکٹر ہے۔ اصل مسئلہ ایک چیز کی دو قیمتیں ہیں۔ رانا تنویر حسین نے کہاکہ مسئلہ گیس کی سپلائی کابھی ہے جس طرح قطر سے گیس خریدی گئی اسی طرح اس کی فروخت کاطریقہ کار بنایا جانا چاہیے تھا ۔ اگر مہنگی گیس خرید کر گھریلو صارفین کو دی جائے گی تو لامحالہ سبسڈی بھی دیناپڑتی ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ صرف سردیوں میں گھریلو صارفین کو آر ایل این جی دی جا تی ہے سب سے اولین ترجیح گھریلو صارفین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گیس کی سٹوریج کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ انجام سے قطع نظر قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی اس وقت فیصلے کئے ۔ ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے غلط فیصلے کر کے ملک کو چونا لگایا ہے جس پر رانا تنویر حسین نے کہا کہ ہمیں یہاں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے ۔ ہمیں پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ راجہ ریاض احمد نے کہا کہ اصل پالیسی سازوں کو بھی پی اے سی میں طلب کیا جائے۔ پی اے سی نے وزارت پٹرولیم کی بریفنگ پر عدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سازی کا فقدان نظر آ رہا ہے ۔ مسائل کاعملی حل کرنے میں وزارت پٹرولیم ناکام رہی ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کس کس کو بلانا ہے اس کافیصلہ ارکان سے مشاورت کرکے دوبارہ وزارت پٹرولیم کو پی اے سی میں بلایا جائے گا۔