19.9 C
Islamabad
ہفتہ, اپریل 19, 2025
ہومقومی خبریںپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کا امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات...

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کا امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کیلئے اعلی سطحی سفارتی کوششوں کی ضرورت پر زور

- Advertisement -

اسلام آباد۔13اپریل (اے پی پی):پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے امریکہ کی طرف سے پاکستان سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر عائد ٹیرف میں حالیہ اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دیرینہ دوطرفہ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے اعلیٰ سطحی سفارتی کوششوں کی تجویز پیش کی ہے۔پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم جاوید نے اپنے ایک بیان میں پالیسی نوٹ کے ساتھ کہا ہے کہ تجارت کھیل نہیں بلکہ مشترکہ اقدار اور روابط کا فروغ ہے جو دونوں معیشتوں کو مضبوط بناتے ہیں۔

یہاں جاری پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے کہاکہ پائیڈ میں ہم اس کو صرف ایک خطرے کے طور پر نہیں بلکہ ایک اہم حقیقت کے طور پر دیکھتے ہیں جو پاکستان کے لیے زیادہ لچکدار، متنوع اور اسٹریٹجک برآمدی مستقبل کی جانب پیش قدمی کا ایک موقع ہے۔انہوں نے متنبہ کیا کہ ٹیرف میں اضافہ سے پاکستان کے تجارتی افق پر مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ مجوزہ امریکی ٹیرف سے پاکستان کے برآمدی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

- Advertisement -

پائیڈ نے اپنے پالیسی نوٹ میں خبردار کیا ہے کہ یہ محصولات معاشی عدم استحکام، ملازمتوں میں نمایاں کمی اور غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدنی میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ڈاکٹر محمد ذیشان، ڈاکٹر شجاعت فاروق اور ڈاکٹر عثمان قادر کی طرف سے کی گئی تحقیق میں امریکہ کو پاکستانی برآمدات پر مجوزہ 29 فیصد ٹیرف کے نتائج کا تجزیہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ 8.6فیصد موسٹ فیورڈ نیشن (ایم ایف این ) ٹیرف میں شامل کیے جانے پر کل ڈیوٹی 37.6فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کو برآمدات میں 20 تا 25 فیصد کی کمی کا امکان ہے جو 1.1تا1.4 ارب ڈالر کے سالانہ نقصان کے مساوی ہو گا اور اس کا نقصان ٹیکسٹائل کے شعبے کو برداشت کرنا پڑے گا۔

مالی سال 2024 میں پاکستان نے امریکہ کو 5.3 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کیں اور امریکا پاکستان کی سب سے بڑی سنگل کنٹری ایکسپورٹ مارکیٹ بنا۔ان برآمدات کا ایک اہم حصہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات پر مبنی تھا جن پر پہلے ہی سے 17 فیصد ٹیرف نافذ ہے۔ اگر مجوزہ ٹیرف لاگو ہوتے ہیں تو پاکستان کی قیمتوں میں مسابقت ختم ہو جائے گی جس سے ممکنہ طور پر علاقائی حریف جیسے بھارت اور بنگلہ دیش کو مارکیٹ شیئر حاصل کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشی نتائج ٹیکسٹائل کے علاوہ دوسرے شعبوں پر بھی ہوں گے۔ نشاط ملز اور انٹرلوپ جیسے بڑے برآمد کنندگان پیداوار کم کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں جس سے 5 لاکھ سے زیادہ ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غیر ٹیکسٹائل برآمدات بشمول چمڑے، چاول، آلات جراحی اور کھیلوں کے سامان کو بھی بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے۔خطرات کے باوجود پائیڈ اس بحران کو تزویراتی تبدیلی کے ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ پالیسی نوٹ میں پاکستان کو جواب میں فوری اور سوچ سمجھ کر کارروائی کی ترغیب دی گئی ہے۔ پائیڈ نے تجویز کیا ہے کہ مختصر مدت میں پاکستان ٹیرف کی باہمی لاگت کو اجاگر کرنے اور دیرینہ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے اعلیٰ سطحی سفارتی کوششوں میں مصروف رہے۔مثال کے طور پر امریکہ نے 2024 میں پاکستان کو 181 ملین ڈالر مالیت کی کپاس برآمد کی اور یہ تجارتی سلسلہ اب خطرے میں ہے۔پالیسی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان مذاکرات کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے مشینری، سکریپ میٹل اور پیٹرولیم سمیت دیگر منتخب امریکی درآمدات پر ٹیرف کو کم کرنے پر بھی غور کر سکتا ہے۔

مزید برآں پاکستانی کمپنیوں کو ویلیو چین کو برقرار رکھنے اور ٹیرف میں چھوٹ حاصل کرنے میں مدد کے لیے مزید امریکی نژاد مداخل جیسا کہ کاٹن اور دھاگہ استعمال کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔ پائیڈ نے اپنے نوٹ میں طویل مدت کے لیے برآمدی مصنوعات اور منڈیوں کو متنوع بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔یورپی یونین، چین، آسیان ممالک، افریقہ اور مشرق وسطیٰ جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں آئی ٹی، حلال فوڈ، پراسیسڈ فوڈز اور کھیلوں کے سامان جیسے شعبوں میں ترقی کے وسیع امکانات پیش کرتی ہیں۔رپورٹ میں توانائی اور رسد کی لاگت کو کم کرنے، ضوابط کو بہتر بنانےسمیت جدت اور ٹیکنالوجی پر عملدرآمد کو فروغ دینے کے اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

مزید برآں ایک جامع امریکی تجارتی حکمت عملی ضروری ہے جو ٹیکنالوجی، زراعت، توانائی، اور ویلیو ایڈڈ مینوفیکچرنگ میں ہم آہنگی پیدا کرنے پر مرکوز ہو۔بین الاقوامی محاذ پرپائیڈ نے کہا کہ مجوزہ امریکی ٹیرف ڈبلیو ٹی او کی پابند ٹیرف کی حد 3.4 فیصد سے زیادہ ہیں جو ممکنہ طور پر کثیر الجہتی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اگرچہ عالمی ادارہ برائے تجارت کے ذریعے قانونی راستہ اختیار کرنا بھی ایک آپشن ہے لیکن پاکستان کے محدود مالی وسائل ایسی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔زیادہ اہم امر یہ ہے کہ ٹیرف عالمی تجارت کی باہم مربوط نوعیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔

یو ایس پاکستان ٹیکسٹائل لوپ ایک اہم مثال ہے جس کے تحت امریکی روئی پاکستانی ملوں کو سپلائی کی جاتی ہے اور بدلے میں تیار شدہ ملبوسات امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں ۔ اس ویلیو چین میں خلل ڈالنے سے کسی بھی ملک کو فائدہ نہیں ہوتا۔ مستقبل کا راستہ مشکل ہے لیکن یہ پاکستان کے لیے اپنے برآمدی فریم ورک کو دوبارہ ترتیب دینے اور مضبوط کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔پائیڈ نے کہا ہے کہ بروقت سفارت کاری، سٹریٹجک پالیسی اصلاحات اور جرات مندانہ تنوع کی کوششوں کے ساتھ پاکستان نہ صرف اس بیرونی جھٹکے کو برداشت کر سکتا ہے بلکہ عالمی معیشت میں ایک زیادہ مسابقتی اور لچکدار کھلاڑی کے طور پر بھی ابھر سکتا ہے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=581361

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں