پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے درمیان معاہدے کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں،افغانستان میں طالبان حکومت کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی کا بی بی سی کو انٹرویو

289

اسلام آباد۔14نومبر (اے پی پی):افغانستان میں طالبان حکومت کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی نے تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے درمیان معاہدے کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ‘دونوں فریقین کی خواہش’ پر اس معاہدے میں تیسرے فریق اور ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ‘ابھی تک حتمی معاہدہ نہیں ہوا ہے تاہم آغاز بہت اچھا ہوا ہے اور معاہدے کے پہلے حصے میں ایک مہینے کی فائربندی پر اتفاق ہوا ہے۔ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ بات چیت جاری رہے گی۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ ایک اچھا قدم ہے اور وہ پرامید ہیں کہ اس سلسلے میں آگے بھی مشکلات پیش نہیں آئینگی۔ انہوں نے اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین نزدیکیاں بڑھیں گی۔اگست میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی اپنے وفد کے ہمراہ تین روزہ دورے پر پاکستان میں موجود تھے۔

انہوں نے اس دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت مختلف حکومتی شخصیات سے ملاقات کی جبکہ صحافیوں اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بیٹھک بھی کی۔اسی دورے میں انھوں نے بی بی سی کو انٹرویو دیا جو ان کا کسی بھی خاتون صحافی کے ساتھ پہلا انٹرویو ہے۔

داعش کے حوالے سے ایک سوال کے جوا ب میں امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ داعش خطرہ تو ہے تاہم ان کی حکومت نے ملک کے بڑے حصے سے اس کا خاتمہ کر دیا ہے۔’اکا دکا واقعات دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ پہلے افغانستان کا ستر فیصد حصہ اسلامی امارات کے کنٹرول میں تھا۔ اب ان تمام علاقوں سے طالبان نے داعش کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا ہے۔ وہ صرف ان حصوں میں موجود تھے جہاں سابق کابل حکومت کا کنٹرول تھا۔جب ہم نے کابل فتح کیا تو ان علاقوں میں داعش نے سر اٹھانا شروع کیا مگر ہماری طالبان حکومت نے ان کو کنٹرول کرنے کے لیے بہترین اقدام کیے۔ ہم نے ابھی اکثر علاقوں میں داعش کو محدود کردیا ہے۔

چند ایک جگہوں جیسا کہ مساجد کی طرف کبھی کبھار کوئی واقعہ ہوجاتا ہے، جو دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔انڈیا کے ساتھ تعلقات کے سوال پر امیر خان متقی نے بتایا کہ افغانستان، انڈیا سمیت کسی ملک کے ساتھ تنازع کا خواہاں نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہمارا دنیا کے کسی بھی ملک کیساتھ ٹکراؤ نہ ہو۔ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان کا کسی اور ملک کے ساتھ کوئی ٹکراؤ ہو یا ایسے چیلنجز آئیں جو ہماری قوم کو متاثر کریں سو ہم اس معاملے پر کام کرتے رہیں گے۔‘

انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات پر پاکستان یا چین کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آنے کے سوال پر انھوں نے ماسکو میں ہونے والی ملاقاتوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’جب ہم نے ماسکو کانفرنس میں شرکت کی تو وہاں انڈیا، پاکستان اور دیگر ممالک کے نمائندے موجود تھے۔ وہاں مثبت باتیں ہوئی تھیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہم کسی ملک کی مخالفت نہیں کریں گے۔‘بی بی سی نے طالبان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے ان کی حکومت آنے کے بعد خواتین کے حقوق کی پامالی سے متعلق بھی سوالات کیے بات کی۔ان سے پوچھا گیا کہ دنیا کو بتایا جاتا رہا ہے کہ طالبان اب پہلے سے تبدیل ہو گئے اور اگر یہ سچ ہے تو ملک میں خواتین کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کیوں نہیں دیے جا رہے؟

امیر خان متقی نے جواب میں ایسی خبروں کی تردید کی اور کہا کہ یہ درست نہیں کہ خواتین کسی شعبے میں نظر نہیں آ رہیں۔’صحت کے شعبے میں خواتین کی شمولیت سو فیصد ہے۔ وہ تعلیم کے شعبے میں بھی پڑھا رہی ہیں۔ ہم نے اس معاملے پر بھی بہتری لائی ہے۔ وہ ہر اس شعبے میں کام کر رہی ہیں جس میں ان کی ضرورت ہے۔ ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ ہم خواتین کو کسی شعبے میں ان کا حق نہ دیں امیر خان متقی نے کہا کہ کسی صوبے میں تعلیمی ادارے بند نہیں ہیں۔

پورے ملک میں تمام تعلیمی ادارے کھلے ہیں۔ ہم نے سکولوں کو تین کیٹیگرییز میں تقسیم کیا ہے۔ پورے ملک میں لڑکوں کے سارے سکول کھلے ہیں اور لڑکیوں کے چھٹی جماعت تک تمام صوبوں میں سکول کھلے ہیں۔اگرچہ کچھ صوبوں میں اعلی درجات والے سکول بھی کھلے ہیں مگر تمام جگہوں پر ایسا نہیں۔ کچھ علاقوں میں مشکل یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے بہت سے سکول پہلے ہی کچھ مہینوں سے بند تھے۔ ہم نے صفر سے سکول کھولنے شروع کیے اور اب تک 75 فیصد کھول دیے ہیں۔ سو ہم اس مرحلے پر رکے ہوئے نہیں ہیں بلکہ کام کر رہے ہیں اور روز بروز ترقی کررہے ہیں۔

افغانستان کے سرکاری اور دیگر دفاتر میں برسرروزگار خواتین کو کام پر واپس جانے کی اجازت نہ ملنے سے متعلق انھوں نے دعوی کیا کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد یہاں گزشتہ حکومت میں کام کرنے والی خواتین میں سے کسی کو بھی ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا ۔امیر خان متقی نے کہا کہ وہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ امید رکھتے ہیں دنیا کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم ہونگے۔انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت میں تمام علاقوں اور قبائل کے نمائندے شامل ہیں اور دنیا کو یہ حکومت تسلیم کرنی چاہیے، افغانستان میں اس وقت جو حکومت قائم ہے اس میں پچھلی حکومت کا تمام سٹاف اور ملازمین شامل ہیں جو تقریبا پانچ لاکھ عملے پر مشتمل ہیں۔ اگر دنیا نے پچھلی حکومت کو ایک ‘انکلوسیو حکومت’ کے طور پر تسلیم کیا تھا تو پھر ہماری حکومت کو کیوں نہیں کرتے؟‘

انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’اگر انکلوسیو حکومت سے دنیا کی مراد ایسی حکومت ہے جس میں تمام قبائل شامل ہوں تو ہماری حکومت میں بھی تمام قوموں اور قبائل کی نمائندگی ہے۔ تمام علاقوں کی نمائندگی ہے۔اگر ان کی مراد وزارتوں میں تمام علاقوں سے نمائندگی ہے تو ہمارے پاس پنجشیر کا وزیر ہے۔ بدخشاں، فاریاب، قندھار، ننگرہار اور کابل کے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ہر ملک اور خطے کی انکلوسیو حکومت کی اپنی تشریح ہے، اس لیے ہم یہ کوشش اب بھی جاری رکھیں گے کہ ہم اپنی حکومت کو مزید انکلوسیو بنائیں اور سب کو حق ملے۔