پاکستان میں کماد کے کل کاشتہ رقبہ کے 95.5فیصد پرآری کی متعارف کردہ اقسام کاشت ہوتی ہیں،ترجمان آری

162
سمبڑیال،کماد کے کاشتکار وں کو گڑوؤں کے تدارک کے لئے دانے دار زہروں کا استعمال کرنے کی ہدایت

فیصل آباد۔ 08 نومبر (اے پی پی):کماد پاکستان کی اہم اور نقد آور فصل ہے جو ملکی زرعی معیشت کے ساتھ چینی کی صنعت میں بہت اہمیت کی حامل ہے جبکہ پاکستان کا شمار گنے کے زیر کاشت رقبہ اورپیداوارکے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے اور پاکستان میں کماد کے کل کاشتہ رقبہ کے 95.5فیصد پرایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کی متعارف کردہ اقسام کاشت ہوتی ہیں نیزپنجاب میں گنے کی اوسط پیداوار تقریباً 690 من فی ایکڑ ہے جبکہ عالمی فی ایکڑ پیداوار تقریباً 709 من فی ایکڑ ہے۔

شوگرکین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آری فیصل آباد کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان کی زرعی معیشت اور شکر سازی میں گنے کو خاص اہمیت حاصل ہے اور زرعی سائنسدانوں کی متعارف کردہ کماد کی نئی اقسام کی کاشت کے فروغ سے نامساعد حالات کے باوجود قومی غذائی تحفظ کے حصول کے ساتھ کاشتکاروں کی خوشحالی بھی ممکن ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں گنے کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی اور مشینی کاشت کے فروغ کیلئے تمام اداروں اور شوگر انڈسٹری کو شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 2.5 فٹ کے فاصلہ پر4 لائنوں میں کماد کی کاشت وقت کا اہم تقاضا ہے نیزمشینی کاشت اور برداشت کے ذریعے کاشتکاروں کے پیداواری اخراجات میں کمی اور فی ایکڑ زیادہ پیداوار کا حصول ممکن ہے۔انہوں نے کہاکہ کماد کے ضرر رساں کیڑوں اور بیماریوں سے تحفظ کے لیے جدید سینسر اور لیزر مشینوں کے علاوہ ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے فروغ کیلئے شوگر انڈسٹری کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جڑی بوٹیوں کی بروقت تلفی سے پیداوار میں 15سے40 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ کماد میں مخلوط فصلوں کی کاشت کو فروغ دیکر کاشتکاروں کے منافع میں اضافہ کیا جاسکتاہے۔