23.2 C
Islamabad
اتوار, اپریل 20, 2025
ہومقومی خبریںپاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے کو عالمی ماحولیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ کر...

پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے کو عالمی ماحولیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے کے حوالہ سے مکالمہ

- Advertisement -

اسلام آباد۔9اپریل (اے پی پی):معاشی دبائو اور بڑھتے ماحولیاتی خطرات کے پیش نظر پاکستان کے لئے کم کاربن ترقی پر مبنی ماحول دوست معیشت کا نظام محض ایک انتخاب نہیں بلکہ بقا کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے تاکہ عالمی سطح پر ابھرتے کاربن ٹیکس کے ضابطوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ان خیالات کا اظہار عوامی و نجی شعبے، بین الاقوامی شراکت داروں، حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی ، منصوبہ بندی کمیشن پاکستان اورپاک جرمن کلائمیٹ اینڈ انرجی پارٹنرشپ (پی جی سی ای پی )کے زیر اہتمام ”کم کاربن کے فروغ کیلئے میکرومالیاتی اقتصادی نظام کو مضبوط بنانا “ کے موضوع پر ایک مکالمہ کے دوران کیا۔

- Advertisement -

یہ مکالمہ بجٹ سے قبل مشاورتی عمل کا حصہ تھا جس کا مقصد پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے کو عالمی ماحولیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ تقریب سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے منصوبہ بندی کمیشن کی رکن برائے فوڈ سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلی نادیہ رحمان نے زور دیا کہ ماحول دوست معیشت سے متعلق اقدامات کو ”اڑان پاکستان“ پروگرام اور اس کے 5Es فریم ورک—برآمدات، ای کامرس، ماحولیات، توانائی اور مساوات—کے تحت اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے عوامی سرمایہ کاری منصوبوں میں ماحولیاتی اہداف کو شامل کریں تو ہمیں کم لاگت اور نرم شرائط پر مالی وسائل حاصل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ماحولیاتی مالیات کے ذریعے نہ صرف قرضوں کی لاگت کم ہو سکتی ہے بلکہ انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر اخراجات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ماہر اقتصادیاتِ توانائی، ڈاکٹر خالد ولید نے امید ظاہر کی کہ یورپی یونین (ای یو) کی جانب سے متعارف کرایا جانے والا کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم پاکستان کی صنعتی برآمدات کی مسابقت میں نمایاں کمی کا سبب بنے گا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جی آئی زیڈ (GIZ) پاکستان کے کوآرڈینیٹر برائے توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور جسٹ ٹرانزیشن مسٹر وولف گینگ ہیسے نے کہا کہ جرمنی نے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات، کاربن اخراج میں کمی، بجلی کے تقسیمی نظام کی ڈیجیٹلائزیشن اور گرڈ کی جدید کاری جیسے اقدامات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہ جہاں مرزا نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے تحت 13,000 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کے باوجود ملک کے خصوصی اقتصادی زونز تاحال غیر فعال ہیں انہوں نے وزارتوں کے درمیان مربوط پالیسی سازی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ توانائی کی منصوبہ بندی کو صنعتی ترقی اور ماحولیاتی لچک کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مشیر گل حسن بھٹو نے بجلی کی آزاد اور مسابقتی تجارت کےلئے CTBCM ماڈل کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام کے تحت نرخوں میں کمی آئے گی اور نجی سرمایہ کاری بڑھے گی۔شمز پاور کے سی ای او عمر ملک نے کہا کہ CTBCM کے نفاذ سے صنعتوں کو مکمل طور پر ڈی کاربنائز ہونے کا موقع ملے گا۔مرکزی پاور پرچیزنگ ایجنسی (CPPA-G) کے ہیڈ آف سٹریٹجی اینڈ پاور مارکیٹ ڈویلپمنٹ عمر ہارون ملک نے گرڈ کی پائیداری کے لئےs STATCOM اور بیٹری جیسی جدید تکنیکی حل اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ۔

پاکستان ٹیکسٹائل کونسل (پی ٹی سی) کے سی ای او حسن شفقات نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئندہ بجٹ میں صنعتی شعبے کو سبز معیشت کی طرف راغب کرنے کے لیے ”گرین بجٹ ٹیگنگ“ جیسے اقدامات کئے جائیں۔ماحولیاتی تبدیلی کے لئے سرگرم سماجی رہنما اور سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمٹ چینج کی سی ای او عائشہ خان نے کہا کہ معاملہ صرف ماحولیات کا نہیں بلکہ ہماری معیشت کے وجود کا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریاں، بجلی کی بندشیں اور برآمدات میں کمی سب اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ نظام میں فوری اور بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=580042

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں