پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس، ایف بی آر کی20-2019 کی اڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا ، ری فنانس سکیم کے تحت قرضے حاصل کرنے والوں کی تفصیلات ان کیمرہ اجلاس میں فراہم کرنے کی ہدایت

91
National Accounts Committee
National Accounts Committee

اسلام آباد۔5جولائی (اے پی پی):پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین نورعالم خان کی زیر صدارت ہوا ۔ اجلاس میں پی اے سی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی ۔ اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) کی20-2019 کی اڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس کے آغاز میں نورعالم خان نے کہا کہ پی اے سی کے 19 اپریل 2023 اجلاس میں یہ بات سامنے ائی تھی کہ 620 افراد اور اداروں کو 3 ارب ڈالر کے 5 فیصد سود پر قرضے دیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت سٹیٹ بنک سے ریکارڈ مانگا اور ایف آئی کو بھی ہدایت کی اس معاملہ کی چھان بین کی جائے ۔ چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ قرضے لینے والے 620 لوگوں کی فہرست سامنے آنی چاہیئے ۔ یہ بھی بتایا جائے کہ ملک کو اس کا کیا فائدہ ہوا۔ شیخ روحیل اصغر نے بھی قرضے لینے والوں کی فہرست کا مطالبہ کیا ۔ سلیم مانڈوی والا اور دیگر ارکان نے کہا کہ سٹیٹ بنک کو پی اے سی کے سوالوں کا جواب دینا چاہیئے ۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر یہ 1956 کے ایکٹ کے تحت ری فنانس کی سکیم تھی ۔

فہرست کی فراہمی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ بینک اور کلائنٹ کے درمیان معاملہ ہوتا ہے ۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ یہ سکیم کووڈ کے دوران صرف ایک سال کے لئے تھی ۔ یہ ڈالر میں نہیں بلکہ مقامی کرنسی میں تھی ۔ قرضے دینے کا اختیار کمرشل بنکوں کا تھا ۔ اس سکیم میں 100 فیصد رسک بنک کا تھا ۔ یہ سکیم جب شروع کی گئی تو سٹیٹ بنک کا پالیسی ریٹ 9 فیصد تھا جبکہ ری فنانس پہلے 7 فیصد پر اور بعد ازاں جب سٹیٹ بنک کا پالیسی ریٹ کم ہوا تو ان قرضوں پر شرح سود 5 فیصد کر دی گئی ۔ اس سکیم کا مقصد اقتصادی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لئے صرف پلانٹ اور مشینری منگوانے کے لئے قرضے دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔

قرض لینے والے اداروں اور کمپنیوں کا انتخاب بنکوں نے خود کیا ۔ 85 فیصد سے زائد فناسنگ پرائیویٹ بنکوں نے کی ہے ۔ سٹیٹ بنک کے پاس لسٹ موجود ہے ۔ 42 فیصد قرض لینے والا ٹیکسٹائل سیکٹر ہے باقی سیمنٹ ، آٹو اور ٹائر سیکٹر وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ پی اے سی کے ارکان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ قرضوں کی سکیموں کا اجرا سٹیٹ بنک کرتا ہے ۔ اس پالیسی کے اثرات دیکھے جانے چاہیئں ۔ نور عالم خان نے کہا کہ یہ قرضے کسی منصوبہ بندی کے بغیر دیئے گئے ۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک نے متعلقہ وزارتوں کو بھی سکیم کے اجرا سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا ۔گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ پہلے سٹیٹ بنک کے پاس قرضوں کی سکیم جاری کرنے کا اختیار تھا اب اس ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی ہے اب حکومت کے پاس اپنے بجٹ سے قرض سکیم جاری کرنے کا اختیار ہے ۔ اس سکیم کے معیشت پر کیا اثرات ہوئے اس کی رپورٹ پی اے سی کو پیش کردی جائے گی ۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس سکیم کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیئے ۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ سکیم کے ثمرات کا پتہ چلنا چاہیئے ۔ گورنر سیٹ بینک نے کہا کہ قرضے روپےمیں دیئے ۔ اب بھی ان قرضوں کے 394 ارب روپے واجب الادا ہیں ۔

مشینری منگوانے کے لئےکتنے ڈالرریلیز ہوئے اس کی تفصیلات چیک کر کے فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ برجیس طاہر نے کہا کہ کہ فنانس کمیٹی میں نے جب یہ مسلہ اٹھایا تھا اس وقت یہ رقم 9 ہزار ارب روپے بنتی تھی اور میں نے روپے کی قدر کا بیڑا غرق کرنے والے آٹھ بینکوں کا معاملہ اٹھایا تھا ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اس کا آج تک جواب نہیں آیا ۔ نور عالم خان نے کہا کہ اس سکیم کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیئے ۔

پی اے سی نے حکومت کو تجویز دی کہ اس طرح کی آئندہ سکیم لانے سے پہلے تمام متعلقہ وزارتوں کو اعتماد میں لیا جائے ۔ پی اے سی نے وزارت تجارت ، وزارت دفاع ، اور آڈیٹر جنرل افس کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ ہم ان کیمرہ تفصیلات دینے کے لئے تیار ہیں ۔ نورعالم خان نے کہا کہ تین دن کے اندر سٹیٹ بنک پی اے سی کو ان کیمرہ اجلاس میں قرض لینے والوں کی تفصیلات فراہم کرے ۔