پر تشدد مظاہروں میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے خاندان اپنے پیاروں کی جدائی پر شدیدصدمہ سے دوچار، شہدا کے بچوں کو تاعمر طویل صبر آزما سفر درپیش رہے گا

51

لاہور۔3نومبر (اے پی پی):پنجاب پولیس نے فرائض کی انجام دہی کے دوران ماضی میں کئی پرتشدد مظاہروں اور واقعات کا سامنا کیا لیکن کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین کی طرف سے بے رحمانہ رویے اور پر تشدد واقعات کے نتیجے میں پنجاب پولیس کے 6اہلکار شہید ہو گئے، ٹی ایل پی نے اپنے قیام سے لیکر اب تک وفاقی دارالحکومت کی طرف 6پرتشدد مارچ کیے جن میں نہ صرف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ اربوں روپے کا کاروباری نقصان بھی ہواتاہم انسانی جانوں کے ضیاع نے ان کے پیاروں کی طرف سے ایسے سوالات چھوڑے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں دے سکتا،

حالیہ پر تشدد واقعات میں 6پولیس اہلکار وں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ کم و بیش ایک ہزار پولیس اہلکار زخمی ہوئے ،انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب رائو سردار علی خان نے پرتشدد مظاہروں کے حوالے سےحالیہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان واقعات میں 741پولیس اہلکار زخمی ہوئے ،

انہوں نے بتایا کہ ٹی ایل پی کی جانب سے پرتشدد احتجاجی مظاہروں،توڑ پھور،سرکاری و نجی املاک کے نقصان اور پولیس اہلکاروں پر جان لیوا حملے ریاستی رٹ کیلئے چیلنج ہیں ۔آئی جی نےیاد دلایاکہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے 2017میں فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس کو راستہ دینے سے انکار کیا جس کی وجہ سے ایک مریض کی موت واقع ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ عوام کی جا ن و مال کے تحفظ کے لئے فرائض سرانجام دینے والے پولیس افسران و اہلکار بھی سچے عاشق رسول ہیں جنہیں دوران ڈیوٹی شہید یا زخمی کیا گیا۔آئی جی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ناموس رسالت کا نعرہ لگاکر نجی و سرکاری املاک اور گاڑیوں کو تباہ کیا گیاجوکہ نبی پاک کی تعلیمات کے یکسر منافی اقدام ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹی ایل پی کے حالیہ احتجاج کے دوران 22اکتوبر کو لاہور پولیس کے 2اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جن میں ہیڈ کانسٹیبل ایوب اور کانسٹیبل خالد جاوید شامل ہیں جبکہ ایک ہی روز میں 15زخمی کانسٹیبلز کو سروسز ہسپتال، 16کو میو ہسپتال ،7کو میاں منشی ہسپتال،فاروق ہسپتال ،نواز شریف ہسپتال اور کوٹ خواجہ سعید ہسپتال میں ایک ایک جبکہ گنگا رام ہسپتال میں 3زخمی اہلکار لائے گئے ان واقعات میں کل 309پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں ڈی ایس پی نوید ،انسپکٹر مسعود،ایس ایچ او کاہنہ،ایس ایچ اوگوالمنڈی شامل تھے۔

دریں اثنا پولیس شہدا کے غم زدہ خاندانوں کی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو فوٹیج نے قوم کو اس وقت صدمہ سے دوچار کردیا جس میں انکے بچے پولیس حکام سے یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا وہ ان کے بابا کو واپس لاسکتے ہیں؟ ،جھنگ پولیس نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لاہور پولیس کے اے ایس آئی محمد اکبر عمر کے جنازے کی ویڈیو شیئر کی جو سادھوکی میں تحریک لبیک اور پولیس کے درمیان تصادم کے دوران زخمی ہوا اور یکم نومبر کوخالق حقیقی سے جا ملا ۔

اسی طرح ایک پولیس کانسٹیبل عدنان احسان جسے گوجرانوالہ کے قریب ٹی ایل پی کے مظاہرین نے بدترین زدو کوب کیا اور قریبی کھیتوں میں پھینک دیا علاوہ ازیں کانسٹیبل غلام رسول کی والدہ ایک ویڈیو فوٹیج میں نہایت غمزدہ حالت میں یہ کہہ رہی ہیں کہ مائوں کیلئے ان کے بچوں کی موت ان کی اپنی زندگی کھو دینے کے مترادف ہوتی ہے،

انکا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کو حضرت محمد ﷺ سے بے پناہ محبت تھی انہوں نے اسلام اور ملک کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے دی۔غلام رسول کے بھائی کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بھائی کی شہادت پر فخر ہے کہ وہ سچے عاشق رسول تھے اور پانچ وقت کی نماز ادا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ 12اپریل کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں ٹی ایل پی کے سربراہ کو حراست میں لیے جانے کے بعدان کی رہائی اور دیگر مطالبات منوانے کیلئے تحریک لبیک کے جانب سے احتجاج کی دھمکی دی گئی تھی ،ان مظاہروں میں کانسٹیبل محمد افضل کو شاہدرہ چوک جبکہ کانسٹبیل محمد عمران کو کرول گھاٹی محمود بوٹی کے قریب شہید کردیا گیااسی طرح کانسٹیبل شفقت علی کالعدم جماعت کے مظاہروں میں زخمی ہوا اور دو ماہ تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا ،42سالہ کانسٹیل شفقت تھانہ گجر پورہ میں تعینات تھا۔

اگرچہ سینئر پولیس انتظامیہ سوگوار خاندانوں کو ہر قسم کی سہولیات اور تعاون فراہم کرنے کیلئے پر عزم ہے تاہم لواحقین بالخصوص شہدا کے بچوں کو ایک طویل صبر آزما سفر درپیش رہے گا اورحکام کی طرف سے تمام تر ہمدردیوں اور معاونت کے باوجود انہیں اپنے پیاروں کی کمی تاعمر محسوس ہوتی رہے گی۔