اسلام آباد ۔ 24 جون (اے پی پی) پی آئی اے کے طیارہ حادثہ کی تحقیاتی ٹیم نے حادثہ سے متعلق اب تک سامنے آنے والےحقائق پر مبنی عبوری رپورٹ جاری کر دی، حادثہ میں 98قیمتی جانوں کا نقصان ہوا جاں بحق ہونے والوں میں 97مسافر و عملہ کے ارکان اور زمین پر موجود ایک بچی شامل ہے، خوش قسمتی سے دو مسافر محفوظ رہے، یہ بدقسمت طیارہ 22مئی 2020ءکو ایک بجکر 5 منٹ پر لاہور سے کراچی کے لئے روانہ ہوا، طیارہ کراچی ائر پورٹ کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ وفاقی وزیر ہوا بازی کی طرف سے بدھ کو قومی اسمبلی کے سامنے ابتدائی رپورٹ پیش کرنے کے بعد وزارت ہوابازی کے حکام نے عبوری رپورٹ کا متن اور حادثہ کی اب تک کی تفصیلات میڈیا کے لئے جا ری کر دی ہیں جس کے مطابق 96 میتیں اب تک ورثاءکے حوالے کی جا چکی ہیں۔ ابھی تک 10 لاکھ فی کس معاوضہ 90 افراد کے ورثاءکو ادا کر دیا گیا ہے۔ زمین پر شہید ہونے والی بچی کے لواحقین کو بھی معاوضہ ادا کر دیا گیا ہے جبکہ زخمی ہونے والے افراد کو پانچ لاکھ فی کس ادا کر دئیے گئے ہیں۔ وزارت ہوابازی کی طرف سے بتایا گیاہے کہ طیارہ حادثے کی وجہ سے 21گھروں کو نقصان پہنچا اس سلسلے میں پی آئی اے نے 45.479 ملین کا تخمینہ لگایا ہے۔ ان مکانات کے رہائشیوں کو پی آئی اے اور گورنر سندھ کی جانب سے رہائش فراہم کی گئی ہے اور جب تک ان مکانات کی تعمیر و مرمت مکمل نہیں ہوتی وہ اس رہائش کو استعمال کر سکتے ہیں۔ دریں اثناءوفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے پریس کانفرنس کے دوران بھی ان تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا اور بتایاکہ وفاقی حکومت نے طیارہ حادثے کے دن ہی 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی، حادثے کے فوری بعد 10رکنی فرانسیسی ٹیم تحقیقات میں معاونت کے لئے پاکستان آئی جس میں چھ افراد ائیر بس فرانس سے تھے جبکہ تین افراد کا تعلق فرانس کے تحقیقاتی ادارے سے تھا اس کے علاوہ باقی ایک شخص انجن بنانے والی کمپنی سے تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کی نگرانی میں ڈیٹا ریکارڈر اور وائس ریکارڈر فرانس لے جایا گیا جہاں غیر ملکی ادارے سے تعلق رکھنے والے 14ماہرین نے اسے ڈی کوڈ کیا۔ ان 14ماہرین میں سے 7 کا تعلق فرانس کے تحقیقاتی ادارے بی ای اے اور پانچ کا تعلق ائربس فرانس سے تھا باقی دو میں سے ایک انجن بنانے والی کمپنی اور ایک یورپی یونین کے سیفٹی ادارے سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری موجودہ تحقیقاتی ٹیم 12افراد پر مشتمل ہے جن میں سے چار ممبران اے اے آئی بی کے ہیں جبکہ باقی پاکستان سے، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، ایک ماہر نفسیات اور دو پائلٹس ہیں۔ باقی تین ممبران غیر ملکی ہیں جن میں دو افراد فرانس کی تحقیقاتی ایجنسی کے ہیں جبکہ ایک ممبر امریکہ کے تحقیقاتی ادارے این ٹی ایس بی سے تعلق رکھتا ہے۔ غلام سرور خان نے کہا کہ ہماری تحقیقاتی ٹیم نے ایک ماہ کی قلیل مدت میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے جو کہ بین الاقوامی قواعد کے مطابق ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی رپورٹ ایک ماہ کی قلیل مدت میں عوام کے سامنے لائی گئی ہے۔ اس ابتدائی رپورٹ میں کچھ حقائق منظر عام پر آئے ہیں جنہیں ہم عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اس ابتدائی رپورٹ کے مطابق بدقسمت طیارہ پرواز کے لئے مبینہ طور پر فٹ تھا۔ اس بدقسمت طیارے نے سات سے بائیس مئی کے دوران چھ مرتبہ کامیاب پروازیں مکمل کی تھیں۔ دونوں پائیلٹس اور معاون پائلٹس تجربہ کار اور طبی طور پر پرواز اڑانے کے لئے فٹ تھے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق پائلٹ نے فائنل اپروچ پر جہاز میں کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی۔ رن وے سے 10میل کے فاصلے پر جہاز کو تقریباً 2500فٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا جبکہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق جہاز 7220فٹ کی بلندی پر تھا۔کنٹرولر نے تین دفعہ پائلٹ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اس کی اونچائی ابھی بھی زیادہ ہے اور پائلٹ سے کہا کہ لینڈنگ نہ کریں اور ایک چکر لگا کر آئیں لیکن اس کے باوجود پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق رن وے سے 10ناٹیکل مائلز کے فاصلے پر جہاز کے لینڈنگ گیر کھولے گئے جبکہ رن وے سے تقریباً پانچ ناٹیکل مائلز کے فاصلے پر جہاز کے لینڈنگ گیر بند کر دئیے گئے۔ جہاز جب لینڈنگ گیر کے بغیر انجن پر ٹچ ڈاﺅن کیا اور جہاز 300سے 400 فٹ تک رن وے پر رگڑے کھاتا رہا۔ اسی دوران پائلٹ نے دوبارہ انجن کو پاور دے کر ٹیک آف کر لیا۔ جہاز نے جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو دونوں انجن ڈیمج ہو چکے تھے۔ جہاز جب دوبارہ لینڈنگ کے لئے اپروچ بنا رہا تو اس دوران سول آبادی پر گر گیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق پائلٹ اور کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔ ایک طرف پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایات کو نظرانداز کیا دوسری طرف کنٹرولر نے بھی پائلٹ کو جہاز کے انجن کے رگڑ کھانے کے بعد نقصان کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ پچھلے 4 بڑے حادثات جن میں ائربلیو، بھوجا ائر، پی آئی اے چترال، پی آئی اے گلگت شامل ہیں۔ ان میں ائربلیو اور بھوجا حادثات کی تحقیقات رپورٹس مکمل ہو چکی ہیں جبکہ چترال حادثے کی رپورٹ اپنے آخری مراحل اور گلگت حادثے کی رپورٹ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ ائربلیو اور بھوجا ائر حادثات کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دونوں حادثات پائلٹس کی غلطی کی وجہ سے پیش آئے جبکہ چترال والا حادثہ تکنیکی وجوہات کی بناءپر پیش آیا۔ اس سلسلے میں حتمی رپورٹ اگست 2020ءمیں تیار کر لی جائے گی۔ پی آئی اے کے گلگت حادثے کی ابتدائی تحقیقات بھی پائلٹ کی غلطی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس حادثے کی رپورٹ بھی اس سال کے آخر تک تیار کرلی جائے گی۔ ان تحقیقات کا مقصد صرف کسی فرد پر ذمہ داری عائد کرنا نہیں ہے بلکہ ایسے اقدامات کا تعین کرنا ضروری ہے جس سے یہ واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ اسی سلسلے میں کچھ اطلاعات کی بنیاد پر ہماری حکومت نے 2019ءمیں ایک اعلیٰ سطحی انکوائری تشکیل دی۔