کاربن کے اخراج میں کمی سے لاکھوں اموات رک سکتی ہیں،سائنسی مطالعہ

69
صدر فیصل آباد چیمبر

لندن۔10اپریل (اے پی پی):’’دی لانسیٹ پلانیٹری ہیلتھ‘‘ جریدے میں شائع ہونے والے تازہ ترین سائنسی مطالعے کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنے کے لیے عالمی اہداف پورا کرنے سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں گرمی سے ہونے والی لاکھوں اموات رک سکتی ہیں۔مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ زمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے کاربن کے اخراج میں کمی سے خطے میں گرمی سے ہونے والی اموات میں 80 فیصد کمی واقع ہو جائے گی۔ گرمی کے خطرے پر علاقائی توجہ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب دبئی، نومبر میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس کاپ ٹوئنٹی ایٹ کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک نے پیرس ماحولیاتی معاہدوں کے تحت گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے، جس سےکاربن کے کم اخراج والے توانائی کے ذرائع پر منتقل ہونے کی کوششیں شروع ہو جائیں گی۔ لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے ماہرین کی زیر قیادت اس تحقیق کے مطابق اگر کاربن کے اخراج میں کمی نہ لائی گئی اور فضا میں اس کی مقدار بڑھ گئی تو ایسی صورت میں اس صدی کے آخر تک خطے میں بسنے والے ہر ایک لاکھ افراد میں سے ہر سال تقریباً 123 افراد گرمی سے متعلقہ وجوہات کی وجہ سے موت کا شکار ہوں گے جو موجودہ گرمی سے ہونے والی اموات کی شرح سے 60 گنا زیادہ اور دنیا کے دیگر خطوں سے کہیں زیادہ ہوگی۔

تجزیہ کیے گئے 19 ممالک میں سے ایران میں زیادہ اخراج کے منظر نامے کے تحت سالانہ اموات کی شرح سب سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ یہ شرح ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 423 اموات سالانہ ہے۔ اس سٹڈی کے ایک سرکردہ مصنف شکور حجات نےبتایا کہ ایران کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت بہت زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر2ڈگری سیلسیس کا ہدف حاصل نہ کیا گیا تو اس کے صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط اقدامات کے باوجود خطے کے ممالک کو اپنے شہریوں کو شدید گرمی کے خطرات سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحت عامہ کے اقدامات جیسے کہ گرمی سے بچاؤ کے قومی منصوبے اور ہیٹ الرٹ وارننگ سسٹم متعارف کروائے جا سکتے ہیں،یہ یورپ اور شمالی امریکا اور ایشیا کے کچھ حصوں میں عام ہیں لیکن مشرق وسطیٰ میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک کو بھی ماحولیاتی تی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنے موجودہ صحت کے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔