کریمنل جسٹس سسٹم میں ریفامز کی ضرورت ہے،،وفاقی وزیر قانون

92
کریمنل جسٹس سسٹم میں ریفامز کی ضرورت ہے،،وفاقی وزیر قانون

اسلام آباد۔7جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں ریفامز کی ضرورت ہے، حکومت تمام سہولیات دے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو جسٹس ریفارمز پراجیکٹ سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اﷲ نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ درست قدم اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے فرمایا کہ عمارتیں بنانے سے تو نظام آگے نہیں بڑھتا کام کرنے سے خرابیاں دور ہوتی ہیں جب تک سوچ کو حقائق میں نہیں ڈھالتے تب تک خرابیاں بھی ٹھیک نہیں ہوتیں ۔

انہوں نے کہا کہ پورا سسٹم سائلین کو سہولت فراہم کرنے کے لئے ہےہمارآئین دنیا کے بہترین آئینوں میں سے ہے، کاش ہم اس پر عملی طور پر عمل کرتے۔وزیر قانون نے کہا کہ ریاست ایک خاندان ہے ہم سب اس کا حصہ ہیں، اب زمانہ بدل گیا جدت آ چکی ہے، سائلین کا بھی حق ہے ان کو بھی سہولت فراہم کی جائے، یہ موضوع میرے دل کے بہت قریب ہے، کریمنل جسٹس سسٹم میں ریفامز کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بار کے دوستو کو کہوں گا اس پراجیکٹ کو مثبت طریقے سے دیکھیں، جو بند دروازے ہیں انہیں کھولیں، ذہنوں کی کھڑکیاں بھی کھولیں اور سائلین کو بروقت انصاف فراہم کرنے کیلئے مشاورت کے ساتھ قانون سازی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے نمائندے کے طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ فوری انصاف کے حصول کیلئے آسانیاں پیدا کریں۔

انہوں نے کہا کہ جیل ریفارمز کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ جسٹس ریفارمز پراجیکٹ عدالتی نظام میں عوامی اعتماد کی بحالی کا منصوبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبہ کیلئے حکومت ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اﷲ نے کہا کہ جلد انصاف کے حصول کیلئے یہ پراجیکٹ لانچ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص 12 سال پہلے جیل گیا اور 12 سال بعد اس کی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہوئی، عدالت نے اسے بری کر دیا، اس کے جیل میں گزرے ہوئے 12 سال کون واپس کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ انصاف صرف عدالتیں ہی نہیں دیگر اداروں کا بھی کام انصاف فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے وہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس ایک کیس آیا اس کیس کو 50 سال ہو چکے ہیں، ان 50 سالوں میں 6 بار کیس سپریم کورٹ گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج سے 50 سال پہلے اسلام آباد بنایا گیا اور جن لوگوں سے زمینیں لی گئیں وہ آج بھی سی ڈی اے کے چکر لگا رہے ہیں، ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پٹوار اور تھانے سے ناانصافی شروع ہوتی ہے پھر عوام کی امید عدالتیں ہوتی ہیں، ہماری جیلوں میں بھی جگہ سے زائد قیدی رکھے ہوئے ہیں، جن کی زمینوں پر اسلام آباد میں بڑے بڑے محل بن گئے ان متاثرین کو آج تک معاوضہ نہیں مل سکا۔ انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹس دکانوں میں کمرشل ایریاز میں بنائی گئی تھیں، وکیل جج اور سائلین کے حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں، خوشی سے کہہ سکتا ہوں سابقہ حکومت نے ہماری درخواست پر ڈسٹرکٹ کورٹس کمپلیکس کی بنیاد رکھی، ان عدالتوں میں جانے والے سائلین ہی نہیں بلکہ ججز کے بھی حقوق پامال ہوتے ہیں، گزشتہ حکومت نے ہماری بات سمجھی اور اب وہ کمپلیکس تیار ہونے کے قریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہر سائل کو ایک مقرر مدت میں انصاف مل سکتا ہے یہ پراجیکٹ اس کے لئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے اکثر لوگ عدالت جا ہی نہیں سکتے، اس بات سے انکار نہیں کہ عدلیہ میں بھی ناانصافی موجود ہے لیکن عدلیہ ریاست کی کبھی ترجیح ہی نہیں رہی۔

انہوں نے کہا کہ وزیرقانون نے درست کہا کہ صرف بڑی بڑی عمارتیں بنانے سے انصاف نہیں ملتا، ہمیں مسائل کا ادراک تھا لیکن ہم ادارہ جاتی اصلاحات کے ماہر نہیں، ہمیں اندازہ تھا کہ ملک کے ایک بڑے طبقے کی انصاف تک رسائی نہیں ہے، جو لوگ ہائیکورٹ تک رسائی کی استطاعت نہیں رکھتے یہ پراجیکٹ ان کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت سوچا کہ کیا کیا جائے تو لیکن ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، یہ پراجیکٹ اصل سٹیک ہولڈرز سائلین کیلئے ہے جس کا تصور ہمیں آئین نے دیا ہے ۔