اسلام آباد۔1مارچ (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نےمطالبہ کیا کہ نواز شریف کےپانامہ کیس کی ٹیرئن کیس بھی روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے، ہم الیکشن کے حامی ہیں لیکن آئندہ عام انتخابات پر مشاورت سے قبل آئینی اور قانونی ابہام دور کیے جائیں ، فارن فنڈنگ کیس میں غیر ضروری درخواستوں کیوجہ سے 6 سال لگ گئے ہیں ۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے بدھ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ایک وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نااہل کر دیا جاتا ہے تو دوسری جانب ایک لاڈلے کو ہر سطح پر ریلیف مل جاتا ہے ، عمران خان مسلسل عدالتوں سے بھاگ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے پہلے اسمبلیوں کی توہین کر کے بھاگ گئے اور اب واپسی کے لئے منتیں ترلے کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ٹیرئن کیس میں مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں ، جعلی بیان حلفیاں لگائیں گی ، لاس انجلس کی عدالت فیصلہ بھی ریکارڈ پر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں بھی عمران خان بھا گ رہے ہیں، ان کے وکیل اب دائرہ کار پر اپنے دلائل دیں گے او ر اسکے بعد میرٹ پر بات کی جائے گی ، اگر چھپانے کے لئے کچھ نہیں ہے تو عمران خان اپنے وکلاء کو آگاہ کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کو چھ سال ہوگئے مکمل ہوتے ہوئے ،وہاں بھی کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ کار کو چیلنج کرتے رہے اس میں بھی صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح وقت لیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز عدالت میں پیشی کے موقع پر حملے ، صحافتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتا ہوں ، وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ صحافیوں کا تحفظ ہمارے اولین فرض میں شامل ہے ،اس معاملے کی مکمل انکوائری ہوگی اور جو بھی ذمہ دار ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے جس طرح نواز شریف کا پانامہ کیس روزانہ کی بنیاد پر کیس سنا گیا تھا اسی طرح ٹیرئن کیس بھی روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے، اس کے علاوہ کوہی چارہ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کا پلڑا مساوی ہونا چاہیے ، سپریم کورٹ کے دو ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں دو ججز کے فیصلے کو شامل رکھنے کی بات کی ، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے اس فیصلے کی تشریح کی ہے کہ یہ فیصلہ 4۔3سے ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کے حامی ہیں اور الیکشن کرانا چاہتے ہیں، عبوری حکومت ، مردم شماری ، حلقہ بندیوں سمیت دیگر امور اہم ہیں ، مشاورت کے سلسلے سے پہلے آئینی اور قانونی ابہام دور کرنا ضروری ہے ۔