وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ فواد حسین چوہدری کا روسی میڈیا کو انٹرویو

100

اسلام آباد ۔ 09 مارچ (اے پی پی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان نے خطے میں امن و امان کے قیام کیلئے اقدامات کیے ہیں اور وزیراعظم عمران خان نے امن وامان کے قیام اور باہمی مسائل کے حل کیلئے بھارت سے کہا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کیلئے جنگ کا ماحول پیدا کرنا چاہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا تاہم اگر کسی بھی قسم کی جارحیت کی گئی تو اس کا موثر جواب دیا جائے گا۔روسی میڈیا کو انٹرویو میں پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپ کی تباہی کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ہرکسی کا اپنا موقف ہوتا ہے اور ہمارا بھی اپنا موقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کسی بھی دعوے کی غیرجانبدار حلقے بہتر تصدیق کرسکتے ہیں اس لئے آپ کو بھارتی دعوے کے حقائق معلوم کرنے کےلئے برطانوی نشریاتی ادارے ”رائٹرز“کی خبر کی تفصیلات جاننی چاہئیں، آپ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس بھی دیکھ سکتے ہیں اور آپ کے پاس ہر وقت یہ موقع موجود ہے کہ آپ خودمختار خبررساں ایجنسیوں کی رپورٹس سے تفصیلات حاصل کرسکتے ہیں۔فواد حسین چوہدری نے کہا کہ اس دعوے کے حقائق یہ ہیں کہ بھارتی فضائیہ بری طرح ناکام ہوئی اور آپ جانتے ہیں کہ اس سے بھارتی وزیراعظم مودی کا بیانیہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ وہ بھارتی افواج کے حوالے سے جس طرح کے دعوے کررہے تھے وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور حقیقیت یہ ہے کہ اس سے وزیراعظم مودی کی اپنی شخصیت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ بھارت کے اس طرح کے دعوﺅں میں کوئی حقیقت نہیں ہے جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا بھی کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کے سپر پاور بننے کے خواب دیکھنے کے علاوہ اب تک کئے گئے بڑے بڑے دعوے جھوٹ ثابت ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی اپنی بنائی گئی کہانی اور بیانیہ اس کے اپنے دعوﺅں کے ہی برعکس ہے ۔ بھارت میں پاکستانی علاقے سے کئے گئے دہشت گرد حملے کے دعوے کے ساتھ ساتھ ایران میں بھی ایک اور دہشت گرد گروپ کے حملے کی خبروں کے تناظر اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہ ہونے اور پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کے اتنا موثرہونے کے حوالے سے کہ پاکستانی حکام ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے کے بارے ایک سوال کے جواب میں فواد حسین چوہدری نے کہا کہ اس طرح کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ دہشت گرد حملوں میں پاکستان کی سرزمین استعمال کی گئی ہو تاہم بھارت کے ساتھ ہمارے تاریخی مسائل موجود ہیں اس لئے وہ کسی بھی قسم کی کارروائی کا الزام ہمیشہ پاکستان پر لگاتا ہے ، حقائق یہ ہیں کہ اگر آج آپ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ دیکھیں تو آپ پر واضح ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کس طرح کے ظلم کررہی ہیں اور ان مظالم کے نتیجہ میں ہی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام میں دراصل اتنی زیادہ نفرت پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو بھارت کا ہر آزاد خیال مصنف اور تجزیہ کاروں سمیت میڈیا کے افراد بھی اس طرح کے واقعات کومقامی واقعات ہی کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بھارت سے کہا تھا کہ اگر وہ کسی قسم کا الزام دیتا ہے تو ہمارے ساتھ اس کے شواہد بھی شیئر کرے لیکن اب تک ہمیں کسی قسم کوئی بھی ٹھوس شہادت فراہم نہیں کی گئی ، اس کے بعد ہم نے بھارت کو مشترکہ تحقیقات کی بھی پیش کش کی لیکن اس کے جواب میں بھی بھارت خاموش رہا۔ انہوں نے کہا کہ مزید برآں ہم نے مذاکرات کی بات کی لیکن اس پربھی بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حقیقت میں بھارتی وزیراعظم مودی اس سانحہ کو اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کےلئے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہتا ہے اور در حقیقت یہی ایک مشکل ہے کہ جب ایک سیاستدان ہزاروں لاکھوں عوام کی زندگیوں کے تحفظ کی پرواہ نہیں کرتا اور صرف اپنی ذاتی سیاست پر توجہ دیتا ہو تو یہ بہت بڑ ی بد قسمتی ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد حسین چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے بھارت سے ٹھوس شواہد مانگے تھے اور پہلے ہی دن جب بھارت نے پاکستان میں کسی تنظیم کی جانب سے پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کیا تھا اورکہا تھا کہ ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں تو وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ شواہد ہمیں فراہم کرے اور ہم اس کے منتظر ہیں ، وزیراعظم نے کہا تھا کہ اگر آپ شواہد کی بنیاد پر پاکستان سے کسی بھی تنظیم کے حملے میں ملوث ہونے کو ثابت کریں تو ہم اس کے خلاف کارروائی کرنے کےلئے تیار ہیں۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو پلوامہ واقعہ میں تحقیقات میں معاونت کی بھی پیش کش کی اور اس کے علاوہ بھارت کو مذاکرات کی دعوت بھی دی لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہماری تمام تر پیش کشوں پر کوئی مثبت رد عمل ظاہرنہیں کیا گیا کیونکہ مودی جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنے سیاسی مقاصد میں کامیاب ہوسکے ۔ فواد حسین چوہدری نے کہا کہ اب تو بھارت میں بھی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ وزیراعظم مودی درحقیقت اس واقعہ کو اپنے سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ حالیہ کشیدگی کے باوجود دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ تعاون کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے یہ بھی ایک تجویز ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تین آپشنز موجود ہیں ہم ہمسایہ ممالک ہیں اور گذشتہ 70سال کے دوران ہماری تین جنگیں ہوچکی ہیں اور ہم ایک اورجنگ بھی کرسکتے ہیں جبکہ دوسرا آپشن یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کمزور کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو سپانسر کررہا ہے اور کلبھوشن یادیوکی گرفتاری سے لے کر لطیف محسود کی گرفتاری تک ہمارے پاس پاکستان میں دہشت گردی کی بھارتی معاونت کے بہت زیادہ ٹھوس شواہد موجود ہیں، بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردی کی معاونت کی اور وہ مسلسل ہمیں کمزور کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہم بھی اس طرح کر سکتے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ تیسرا آپشن یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مذاکرات اور بات چیت کے ذریعہ مشترکہ طور پر دہشت گردی کے خلاف شراکت داری قائم کریں اور اب ہم بھارت کو یہ تیسری پیش کش کررہے ہیں اس کے علاوہ اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بھارتی قیادت کو کہہ رہے ہیں کہ آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہمیں آپس میں بات چیت کرنی چاہئے اگر ہم مسائل پر گفتگوکریں گے تو ان کے حل میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت کشمیر ہی ایک حقیقی مسئلہ ہے جس پر پاکستان اوربھارت کو مذاکرات کی ضرورت ہے ۔ فواد حسین چوہدری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا علاقہ دنیا میں سب سے زیادہ فوج کا حامل علاقہ بن چکا ہے کیونکہ ہر 10 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی مسلط ہے ۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں اس طرح کا ماحول پیدا کررکھا ہے ہم چاہتے ہیں کہ بھارت ہمارے ساتھ تعاون کرے اور ہم مل کر اپنے کئی مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ گرفتار بھارتی پائلٹ کی رہائی اور وزیراعظم عمران خان کے دانشمندانہ رویہ ،دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی بہتری کی بنیاد ثابت ہوسکتا ہے ،کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں اصل میں وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے سے قبل بھی بھارت کو یہ پیش کش کی تھی کہ اگر وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بھی عمران خان نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کےلئے کرتار پور راہداری قائم کی ، ہم نے خطے میں امن وامان کے قیام کےلئے کئی اقدامات کئے لیکن حقیقت میں ہمیں ان کا کوئی موثر جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی اب بھارت میں جنگی جنون پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکے۔ فواد حسین چوہدری نے کہا کہ بھارت میں انتخابات کے انعقاد تک امن وامان کا قیام دراصل ایک مشکل عمل ہے لیکن حقیقت میں ہم ان انتخابات کا انتظار کررہے ہیں تاکہ ہم مذاکرات یا امن عمل کو دوبارہ شروع کرسکیں۔ بھارت یہ دعوی کرتا ہے کہ پاکستان نے اس کے طیارے گرانے کی کارروائی میں امریکا سے خریدے گئے ایف سولہ طیارے استعمال کئے ہیں جو امریکا کے ساتھ کئے گئے پاکستان کے معاہدے کی خلاف ورزی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ یہ طیارے کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونگے اس پر امریکا کا متوقع رویہ کیا ہوگا اور ایف سولہ طیاروں کے مزید استعمال وغیرہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فواد حسین چوہدری نے کہا کہ اس میں کوئی حقیقیت نہیں ہے ہم نے ایف سولہ طیاروں کی پوری قیمت ادا کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اس واقعہ میں معاہدے کی کسی قسم کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ بھارتی طیارے گرانے کے مشن میں کوئی ایف سولہ طیارہ استعمال نہیں کیا گیا اور یہ بات پاکستان پہلے بھی واضح کرچکا ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہم حقیقت میں جنگ اور اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما ہوں یہ نہیںچاہتے ،ہم امن کے خواہاں ہیں اورہم چاہتے ہیں کہ ایف سولہ اور ایف 17 تھنڈر کے استعمال کے بغیر ہی مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور آپ جانتے ہیں کہ بم کسی مسئلے کا حل نہیں اور پاکستان مسائل کا پرامن خاتمہ چاہتا ہے لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی توپھر ہم یہ بہتر جانتے ہیں کہ جنگیں کس طرح لڑی جاتی ہیں۔ روسی میڈیا کی طرف سے پاکستان اور امریکا کے اتحادی ہونے اورپاکستان پر دہشت گردی کی معاونت میں ملوث ہونے کے الزامات کے تناظر میں پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری اور بھارت کی جانب امریکا کے جھکاﺅکے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلات ونشریات نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کے خواہشمند ہیں، آپ جانتے ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات کی تاریخ طویل رہی ہے اور اس میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں ، آپ جانتے ہیں کہ ایک ایسا تاثر بھی موجود ہے کہ جب بھی امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کی پالیسیاں دوستانہ ہوجاتی ہیں اورجب ان کو پاکستان کی ضرورت نہ تو وہ دشمن بن جاتے ہیں اور اگر وہ دشمنی نہ بھی کرے تو وہ اجنیت کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے امریکا کے ساتھ اسی طرح کے ہی تعلقات رہے ہیں لیکن اب ہم معیشت کی بنیاد پر مستحکم تعلقات چاہتے ہیں اور ہم روس کے ساتھ بھی اسی طرح کے ہی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ فواد حسین چوہدری نے کہا کہ ہم ایک خودمختارملک ہیں اور ہم تمام ممالک کے ساتھ آزادانہ تعلقات چاہتے ہیں اور باہمی مسائل کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ تعلقات باہمی مساوات کی بنیاد پر ہونے چاہئیں تاکہ کسی بھی ملک کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ چین پاکستان کے باہمی تعلقات اورسلک روڈ منصوبہ کے تناظر میں بھارت کے ساتھ تنازعہ کے حل میں چینی معاونت کے کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد حسین چوہدری نے کہا کہ ہم تنازعات کے خاتمہ کےلئے پرامن حل چاہتے ہیں لیکن پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو پلوامہ واقعہ کے بعد بین الاقوامی سطح پر بہت بڑی حمایت حاصل ہوئی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ روس نے بھی ثالثی کی پیش کش کی ہے جبکہ صدر ٹرمپ نے تنازعہ کوہوا نہ دینے کی بات کی اس کے علاوہ یورپی یونین نے واضح طور پر کہا ہے کہ بھارت چیزوں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرے اور کشیدگی کو ہوا نہ دے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہم تنازعہ کے بارے میں نہیں سوچتے لیکن پاکستان اور چین کے طویل تاریخی تعلقات کے تناظرمیں ہم چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو معیشت کی بنیاد پر مزید فروغ دینا چاہتے ہیں۔ سی پیک منصوبہ جس میں چین سرمایہ کاری کررہا ہے درحقیقت ایک بہت بڑا معاشی منصوبہ ہے اور ہم نہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ بلکہ ہم نے دیگرممالک کو یہ پیش کش بھی کی ہے کہ وہ منصوبے میں شامل ہوں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کریں پس ہم چین کے ساتھ اقتصادی بنیادوں پر تعلقات میں وسعت چاہتے ہیں اور اسی طرح دیگرممالک کے ساتھ بھی ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کرنے کےلئے ہم امن کے خواہشمند ہیں اوربھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور افغانستان میں استحکام ہمارے لئے دونوں ہی بڑے اہم ہیں اور یہی ہماری حکومت کے اہم مقاصد ہیں۔