اسلام آباد ۔ 19 جون (اے پی پی) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث کا باضابطہ آغاز بدھ کو ہوگیا‘ اس دوران اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے اراکین نے اسے موجودہ حالات میں متوازن اور عوامی خواہشات کا ترجمان قرار دیا ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا۔ انہوں نے تقریباً چار گھنٹے تک آئندہ مالی سال کے بجٹ کا احاطہ اور اپنی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ متحدہ مجلس عمل کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ ہر جماعت کے منشور کا عکاس ہوتا ہے۔ اگر تحریک انصاف نے منشور کو مدنظر رکھ کر بجٹ بنایا ہے تو یہ عوام دوست ہے تاہم اگر اس میں منشور کو مدنظر نہیں رکھا گیا تو یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے امتناع سود بل اس ایوان میں پیش کیا تھا، چار اجلاس ہونے کے باوجود اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ سود کے خاتمے تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ سودی نظام کی وجہ سے اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ ستر ہزار روپے کا مقروض ہے۔ حکومت کو سب سے پہلے سودی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی‘ صحت و تعلیم کی سہولیات کی فراہمی، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر حکومت کا منشور تھا ، اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اضافی محصولات کے ہدف سے عوام پر بوجھ بڑھے گا۔ لواری ٹنل کے لئے دس ارب روپے‘ چترال شندور روڈ کے لئے 17 ارب روپے‘ گلگت چترال روڈ کے لئے بھی اتنے ہی فنڈز رکھے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے حلقہ میں وفاق کی جانب سے ٹرانسمیشن لائنوں کے بچھانے سمیت دیگر منصوبے دینے پر وفاق کے شکر گزار ہیں۔