آئین پر عمل پیرا ہو کر ہی تمام چیلنجز سے بخوبی نمٹا جا سکتا ہے، بین الاقوامی پارلیمانی کنونشن سے رہنمائوں کا خطاب

58

اسلام آباد۔11مئی (اے پی پی):سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پارلیمان آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرنے والا سب سے پہلا ادارہ ہے،آئین میں کوئی مداخلت ہوتی ہے یا طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو آئینی بحران جنم لیتے ہیں،ملٹری مداخلت کرتی ہے ، سافٹ یا ہارڈ مارشل لا کی وجہ سے بھی بحران پیدا ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں جمعرات کو بین الاقوامی پارلیمانی کنونشن کے موقع پر “بحرانوں کے دور میں آئین۔نیویگیٹنگ چیلنجز” کے عنوان سے پلینری سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہاکہ گلوبل آرڈر تبدیل ہو رہا ہے،گلوبل آرڈر اقوام متحدہ کے چارٹر پر مبنی ہے،ہمارے پاس متفقہ منظور کیا گیا آئین ہے،کسی بھی مہذب جمہوریت میں آئین ہمیں زندگی کے اصول بتاتاہے۔انہوں نے کہا کہ جنہوں نے یہ آئین بنایا وہ اس وقت برصغیر کے مشہور بیرسٹر تھے،قائد اعظم محمد علی جناح اور ذولفقار علی بھٹو قانون کی بالا دستی کی بات کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ آئین میں کوئی مداخلت ہوتی ہے یا طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو آئینی بحران جنم لیتے ہیں،ملٹری مداخلت کرتی ہے ، سافٹ یا ہارڈ مارشل لا کی وجہ سی بھی بحران پیدا ہوتا ہے۔

ان کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کے بعد امریکا کی جمہوریت سب سے پرانی جمہوریت ہے۔امریکا میں اگر خارجہ پالیسی کی بات ہو تو بھی وہ اپنے آئین کی مخالفت کرتے ہیں ،ویتنام کی جنگ، عراق، افغانستان میں جنگ امریکا کی غیر آئینی جنگ تھی،ماہرین نے گوانتونامو بے جیل کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت ہےوہاں بھی آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔کشمیر کا معاملہ ہو یا انسانی حقوق کی بات ہو تو بھارت اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے،کشمیر کے معاملے پر بھارت یو این کے قراردادوں کی مخالفت کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ملٹری رولرز نے آئین کی خلاف ورزیا ں کیں ۔انہوں نے کہا کہ آئین کی سب سے پہلے محافظ اور دفاع کرنے والی پارلیمان ہے،طیب اردوان کے خلاف’’ ملٹری کو ‘‘ہوا وہاں کے سپیکر نے گرینڈ اسمبلی کا اجلاس بلایا اور “کو‘‘ کو مسترد کیا، 150جنرلز کو گرفتار کیا گیا۔انہوں نے پارلیمان کی سپریمیسی کو ایک اہم ٹول بھی قرار دیا ۔ پلینری سیشن سےکینیا کی پارلیمنٹ کے ممبر فرح مالم محمد احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں ہمارے مذہب میں نہیں ہیں، میرے حساب سے درست جمہوریت عمان اور کویت کی ہے۔ہمیں غلطی دہرانے کے بجائے اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کا بحران تب ہوتا جب پیچیدگی ہوتی ہے اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتاہے،ملک میں احتجاج سے کوئی چیز حاصل نہیں کی جا سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ سوچتے ہیں کہ یورپ اور امریکا آپ کی مدد کریں گے تو ایسا بالکل نہیں ہے،آئین حرف آخر نہیں ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نمائندے خود منتخب کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے پیغمبر ﷺاور حضرت عمرؓ کی زندگی سے طرز حکومت سیکھنا چاہئے،آج کے دور میں سیاست ایک کاروبار بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین ایک زندہ جاوید کتاب ہے۔پارلیمان کو قانون سازی سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ پارلیمان کا کام ہی قانون سازی کا ہے۔قانون میں سقم ہوگا تو اس میںترمیم کرنی ضروری ہے۔کرغزستان کی پارلیمنٹ کے رکن اتازو شیلوبیک نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملکی مسائل کا حل آئین میں موجود ہوتا ہے۔10 مئی 1973 کو پاکستان اور کرغزستان کے درمیان تعلقات استوار ہوئے۔دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں،اس تعاون کو مزید بڑھانے کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں،انہوں نے کہا کہ ہماری رہنمائی آئین کے ذریعے ممکن ہوتی ہے،دستور میں اہم چیز انسانی حقوق کی پاسداری ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرغزستان اور پاکستان میں تجارت بھی خوش آئند ہے۔جبکہ سائنسی ، تکنیکی تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے سےاقدامات ہو رہے ہیں۔باہمی سرمایہ کاری خوش آئند ہے، ٹورزم سپورٹس کا شعبہ مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی لوگ انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں ،میں دل سے پاکستان کا احترام کرتا ہوں ،قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو دستور دیا میں ان کا بھی احترام کرتا ہوں۔اس موقع پر برٹش پارلیمنٹ کے رکن خالد محمود نے کہا کہ کہنے کو جمہوریت آسان چیز ہے لیکن حقیقت میں مشکل کام ہے،جمہوریت کو سمجھنا بنیادی چیز ہے،آئینی دستاویز زندہ جاوید دستاویز ہوتی ہے اور کٹھن حالات میںہماری رہنمائی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ 5 سال تک نمائندے رہیں گے اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس برطانیہ میں کوئی تحریری آئین نہیں ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت بالکل ایک جمہوری ملک نہیں ہے-کشمیر یوں، سکھوں ، اور بھارت میں ادنہ طبقے سے تعلق رلھنے والوں کی بات آتی ہے تو بھارت سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہاہے۔انہوں نے بھارت کو جمہوری ملک ماننے سے انکار کردیا۔پلینری سیشن سے ممبر قومی اسمبلی خالد مقبول صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے،ممالک کو آئینی بحرانوں کا سامنا ہے۔نریندرمودی کے دور میں بھارت سیکولر سٹیٹس کھو چکا ہے،وہاں مذہبی جنونی شخص کی حکومت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت نے مذہبی جنونی حکومت کو منتخب نہیں کیا جبکہ بھارت نے دو دفعہ کیا۔

دنیا کے امن کو بھارت سے خطرہ ہے لیکن ہمیں اپنے ملک پر دھیان دینا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا آئین ایک متفقہ آئین ہے، جو قومی اتفاق رائے سے وجود میں آیا۔ہم آئین اور آئین ہمارا محافظ ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم نے اپنے آئین کو مضبوط بنایا ہے ؟ کیا ہم آئین میں بیان کئے گئے حقوق عوام تک پہنچا سکے ہیں؟امید ہے ہمارا آئین ہمیں اس قابل کرے گا کہ دنیا میں سر اٹھا کر چلیں گے۔امید ہے کہ یہ ملک آئین شکنوں کو سزا دینے کی جرت کرے گا۔ممبر قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ اس وقت ملک کو سیاسی، معاشی، جوڈیشل بحرانوں کا سامنا ہے،الیکشن کی تاریخ طے کرنے کے حوالے سے بحران پیدا ہوا ہے جبکہ عدلیہ میں تقسیم اور پارلیمان کے کام میں مداخلت سے بھی بحران نے جنم لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کی گرفتاری کے بعد حالات کے پیش نظر آرٹیکل 245 نافذکر کے فوج بلائی گئی ہے۔ایمرجنسی رول کی آئین میں گنجائش ہے لیکن اس قسم میں اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ایمرجنسی کی دوسری قسم جب اسمبلی تحلیل ہوتی ہے اور ملٹری اداروں پر قابض ہو جاتی ہے خطرناک ہے۔انہوں نے کہا کہ نظریہ ضرورت کے تحت 1958میں آئین منسوخ ہوا، 1973 کے بعد بھی دو دفعہ آئین منسوخ کیا گیا۔

ججز نے نظریہ ضرورت کے دروازے اب بند کر دئے ہیں۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کے لکھنے والوں کو مبارکباد دیتی ہوں۔اٹھارہویں ترمیم لکھنے والوں نے تمام غیر ضروری چیزوں کو ہٹا دیا اور تقریبا 103 ترامیم کی گئیں۔آئین پر عمل پیرا ہو کر ہی تمام چیلنجز سے بخوبی نمٹا جا سکتا ہے۔