آئین کا آرٹیکل 63 اے مکمل طور پر الگ اور واضح ہے ،اگر کوئی واپس نہیں آتا تو وہ سزا کا حقدار ہوجائے گا ،ڈاکٹر بابر اعوان

93

اسلام آباد ۔21مارچ (اے پی پی):وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر بابر اعوان نے کہاہے کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے مکمل طور پر الگ اور واضح ہے ۔اگر کوئی واپس نہیں آتا تو وہ سزا کا حقدار ہوجائے گا ، قومی اسمبلی کے 25مارچ کے اجلا س پر یہ اعتراض کیا جارہاہے کہ وہ گویا آئین کی خلاف ورزی ہے لیکن یہ آئین کی قطعی خلاف ورزی نہیں ہے اورشق نمبر 254میں یہ باقاعدہ لکھا ہے کہ اگر کسی جگہ کوئی وقت مقرر ہے اسمبلی کا ایکٹ کرنے کا اور اس عرصہ کے اندر وہ ایکٹ نہیں ہوتا تو اس گرائونڈ پر نہ ہی اس کو چیلنج کیاجاسکتا ہے نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی غیر قانونی کام ہوا ہے ۔اس لیے سپیکر نے آئین کے عین مطابق تاریخ طے کی ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہاکہ دوسری طرف قرارداد کے لیے 25تاریخ کو ایجنڈے پہ آنا ضروری ہے ۔قرارداد بننے کے بعد کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ آٹھ دن میں اس پر بحث ہوگی۔پھر قرارداد کے تجویز کنندگان کی جانب سے اور حکومت کی جانب سے اپنا نقطہ نظر پیش کیاجائے گا ۔

تیسری بات یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک ووٹ نہیں ڈالا جائے گا ،نااہل نہیں کیاجاسکتا ۔وکلاءمحاذ کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63Aکی تعریف دی ہے کہ جو شخص پارٹی کے سربراہ کی ہدایت کو نہیں مانے گا وہ اس گرائونڈ پر نااہل ہوجائے گا ۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو تاریخ طے ہوئی ہے اس کے لیے اسمبلی نے موشن کیری کی تھی ۔

یہ ساری پارٹیاں جو آج کہہ رہی ہیں کہ اجلا س نہیں ہونے دیں گے ،پہلے زہر اگلتے ہیں پھر زہر چاٹنا پڑ جاتا ہے ،ان ساری پارٹیوں نے متفقہ طور پر یہ دی تھی ۔اس کے علاوہ یہ سوال کہ سپیکر کے پا سیہ اختیار ہے یا نہیں ۔اس بارے میں بحث آپ پر چھوڑتا ہوں ۔وکلا محاذ کیس کے حوالے سے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ 2018کا موجود ہے ۔اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے 62ون ایف کی وضاحت کی ہے جس کے تحت اگر کوئی صادق امین نہیں رہاتو پھر اسے تاحیار نااہل کیاجائے گا ۔

ا س فیصلے کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیلنج کیا جس پر نظر ثانی اپیل بھی خارج ہوچکی ہے ۔اس چیلنج پر جو اعتراض آیا وہ یہ تھا کہ اس کیس کا فیصلہ ہوچکا اس پر نظر ثانی رد ہوچکی اب اسے دوبارہ کسی صورت زندہ نہیں کیاجاسکتا ۔اس لیے آئین کا آرٹیکل 63A مکمل طور پر الگ اور واضح ہے ۔اگر کوئی واپس نہیں آتا تو وہ سزا کا حقدار ہوجائے گا ۔