اسلام آباد ۔ 14 ستمبر (اے پی پی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ جب تک ججز آزاد، خودمختار اور بیرونی دباﺅ سے بالاتر نہیں ہوںگے تب تک انصاف ممکن نہیں ہے، آئین اور قانون کے تحت کسی کو عدلیہ کی آزادی دبانے کی اجازت نہیں ہے، ہر جج نے اپنے عہدے کا حلف لیا ہوتا ہے جس کے باعث وہ انصاف کرنے کا پابند ہے۔ پیرکو یہ بات چیف جسٹس آف پاکستان نے یہاں سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال21 2020- کے آغاز سے متعلق منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہی، تقریب میں معزز ججز صاحبان، بار کے نمائندگان اور وکلا کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جج ہونا صرف اعزاز نہیں بلکہ جج پر انصاف دینے کی بھاری ذمہ داری ہے، ہر جج نے اپنے عہدے کا حلف لیا ہوتا ہے جس کے باعث وہ انصاف کرنے کا پابند ہے، آئین کا دیباچہ عدلیہ کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظام انصاف میں ہمیں جس مقام پر ہونا چاہئے اس کیلئے طویل سفر باقی ہے، فراہمی انصاف نہ صرف ہر مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے بلکہ یہ اسلام کہ ان بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے جس کا تصور قرآن و سنت نے دیا ہے، انصاف صرف حقوق کا تعین کرنے کا نام نہیں بلکہ مساوات قائم کرنے کا نام ہے، قانون کی نظر میں عوام کے حقوق جنس، مذہب اور نسل سے بالاتر ہوتے ہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ آئین کی بالادستی کیلئے سپریم کورٹ ہر ممکن اقدام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ وکلا نے کورونا وائرس کے دوران انہتائی ہمت اور جرا¿ت سے فرائض انجام دیئے، کورونا وائرس کے دوران حفاظتی اقدامات کے ساتھ عدالت عظمی نے اپنی پیشہ ورانہ روایت برقرار رکھی۔ انہوں نے کہا کہ نئے عدالتی سال کی تقریب ہمارے گزشتہ سال کی کارکردگی کو چانچنے اور نئے اہداف کے حصول کیلئے نئی پالیسی وضع کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جب میں چیف جسٹس بنا تو محسوس کیا کہ پاکستانی عدالتی نظام میں زیر التوا مقدمات بہت زیادہ ہیں، عدالت عظمی میں زیر التوا مقدمات پر اہم فیصلے کئے، انصاف کی بروقت فراہمی کیلئے ای کورٹ نظام کے ذریعے بھی مقدمات کی سماعت کی گئی، مقدمات کا زیرا التوا ہونے کا سبب غیر ضروری التوا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں نئی درخواستیں جمع ہورہی ہیں لیکن پرانی درخواستوں پر سماعت بھی کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے نئے عدالتی سال کیلئے پالیسی کا اعلان بھی کیا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے عدالتی سال میں ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا،انصاف میں تاخیر بنیادی مسئلہ ہے، انصاف میں تاخیر کے مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے جبکہ قانونی اور انتظامی اصلاحات کی بھی فوری ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ ان تمام معاملات کو عدالتی پالیسی ساز کمیٹی میں فوری اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ معیاری انصاف کی فراہمی معیاری بینچ اور بار کی مرہون منت ہے، بینچ کا سب سے بڑا انحصار بار پر ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظام انصاف میں موجود خامیوں کے باعث وائٹ کالر کرائم کا ارتکاب کرنے والے بچ نکلتے ہیں۔ ایسے جرائم کا شکار پاکستان کے عوام ہوتے ہیں جن کے اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک بھیجے جاتے ہیں، نظام انصاف میں موجود خامیوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔