اسلام آباد۔22نومبر (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ (کیمیا) نے "فلسطین اسرائیل تنازعہ پر علاقائی تناظر” کے عنوان سے ایک ویبنار کا انعقاد کیا۔ ویبنار کی نظامت ڈائریکٹر سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ آمنہ خان نے کی۔
ویبنار کے مقررین میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود، چیئرمین آئی ایس ایس آئی سفیر خالد محمود، پاکستان میں فلسطین کے نائب سفیرڈاکٹر نادر الترک، شعبہ سیاسیات، قاہرہ یونیورسٹی سے ڈاکٹر معتمر امین، ڈائریکٹر، (عصام فیرس انسٹی ٹیوٹ فار پبلک پالیسی اینڈ انٹرنیشنل افیئرز) امریکن یونیورسٹی آف بیروت، لبنان ڈاکٹر جوزف باہوت، پروفیسر ابن خلدون سینٹر فار ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز، قطر یونیورسٹی ڈاکٹر علی باقر، محقق سیٹا فاؤنڈیشن برائے سیاسی، اقتصادی اور سماجی تحقیق، ترکی ڈاکٹر بلگیہان اوزترک، شعبہ سیاسیات، یونیورسٹی آف کویت سے ڈاکٹر حنان الحجیری، سعودی محقق اور فرقہ واریت، پراکسیز اور ڈی سیکٹرینائزیشن پروجیکٹ سے ڈاکٹر عزیز الغاشیان اور آئی پی آئی ایس ایران سے ریسرچ فیلو ڈاکٹر امید بابلیان شامل تھے۔
بدھ کو جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود نے غزہ کے عوام کو درپیش صورتحال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ فلسطینیوں کے مزاحمت کے حق کو بین الاقوامی قانون کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے جاری اسرائیلی فوجی حملے کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا، جو بین الاقوامی قانون ل کی مکمل خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے فوری جنگ بندی، غزہ تک انسانی امداد کی بلا روک ٹوک ترسیل اور معصوم فلسطینی شہریوں کے تحفظ پر زور دیا۔ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے حملوں اور مظالم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفیر سہیل محمود نے ان ناانصافیوں کو روکنے کے لئے فوری کارروائی پر زور دیا۔ امریکی موقف کا جامع جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے، انہوں نے اسرائیل کو جنگ بندی کی طرف لے جانے اور امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے فعال اقدامات پر زور دیا۔
بین الاقوامی اداروں کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے، انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، سلامتی کونسل، عرب لیگ اور او آئی سی سے متحد اور پر زور کوششوں پر زور دیا۔ ڈائریکٹر سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ آمنہ خان نے غزہ پر اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی کے سنگین نتائج کو اجاگر کرتے ہوئے اسے فلسطینی عوام پر منظم جبر سے منسوب کیا۔ انہوں نے نسل پرستی اور نسل کشی جیسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کی فوجی مہم کو تباہ کن اور بلا امتیاز قرار دیا اور وسیع تر علاقائی اثرات سے خبردار کیا۔
ڈاکٹر نادر الترک نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے واقعات اسرائیلی نسل پرستی کی 75 سالہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ انہوں نے فلسطین کے مسئلہ پر مغربی دوہرے معیار پر تنقید کی اور غزہ میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کے لیے علاقائی ممالک اور مسلم دنیا کی مداخلت پر زور دیا۔ ڈاکٹر الترک نے منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے سفارت کاری، مذاکرات اور بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر معتمر امین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جاری تنازعہ میں دوطرفہ علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات سمیت تمام عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس مسئلہ کا دو ریاستی حل ہے۔
ڈاکٹر جوزف باہوت نے مسئلہ فلسطین کو ترجیح دینے اور غزہ جنگ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اسے کسی بھی مفاہمت یا دو طرفہ معاہدے میں شامل کرنے پر زور دیا۔ ڈاکٹر علی باقر نے قطر کے مسلسل تعمیری کردار پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کی اہم انسانی اور مالی مدد پر زور دیا۔ انہوں نے طویل مدتی اثرات سے بچنے کے لیے اسرائیل کے لیے امریکی غیر مشروط حمایت میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر بلگیہان اوزترک کاکہنا تھا کہ ترکی اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لئے نئے آپشنز اور راستے تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ڈاکٹر حنان الحجیری نے سات دہائیوں سے اسرائیل کے خلاف کویت کے ثابت قدم موقف پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد کے لئے مسلسل بین الاقوامی مطالبات کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے اندر موجود پیچیدگیوں اور اسرائیل کے بارے میں اس کے مختلف موقف کا حوالہ دیا اور کہا کہ غزہ کی تعمیر نو پر بات چیت امن کے عمل میں پیشرفت پر منحصر ہے۔
انہوں نے اہم مسائل کے از سر نو جائزہ پر زور دیتے ہوئے بنیادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر امید بابلیان نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال سات دہائیوں کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے جو فلسطینیوں کے وقار کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے حملوں کو روکنے، انسانی ہمدردی کی راہداری کے قیام اور جبری نقل مکانی کے خلاف پرعزم موقف پر زور دیا۔
سفیر خالد محمود نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ اسرائیل نے تمام حدیں پار کر دی ہیں اور اس حوالے سے مغرب کا دوہرا معیار بے نقاب ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوری طور پر جنگ بندی پر عمل کیا جائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نکالا جائے۔