21.6 C
Islamabad
جمعہ, اپریل 25, 2025
ہومقومی خبریںآئی ایس ایس آئی میں "پاکستان میں مہاجرین کی گورننس: ایک تشخیص"...

آئی ایس ایس آئی میں "پاکستان میں مہاجرین کی گورننس: ایک تشخیص” پر گول میز کانفرنس کا انعقاد

- Advertisement -

اسلام آباد۔24اپریل (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں سینٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ نے”پاکستان میں مہاجرین کی گورننس: ایک تشخیص” پر ایک گول میز مباحثے کا اہتمام کیا، جس کی میزبانی دی بیونڈ پروجیکٹ، فیکلٹی آف لاء، اوسلو یونیورسٹی، ناروے نے کی۔تعارفی کلمات سفیر سہیل محمود، ڈائریکٹر جنرل، آئی ایس ایس آئی نے دئیے۔ آمنہ خان، ڈائریکٹر سینٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ نے سیشن کی نظامت کی۔ اس بحث میں پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور پریکٹیشنرز نے شرکت کی۔

اپنے ریمارکس میں سفیر سہیل محمود نے 1951 کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط نہ کرنے کے باوجود افغان مہاجرین کی میزبانی کے لیے پاکستان کے چار دہائیوں سے زائد عرصے کے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ طویل ترین عرصے تک مہاجرین کے سب سے بڑے کیس کو ہینڈل کرتا رہا ہے۔

- Advertisement -

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال یا کاروبار میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیونکہ ملک کو محدود بین الاقوامی حمایت حاصل ہے اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ سفیر سہیل محمود نے سول سوسائٹی اور این جی اوز کے اہم کردار کا بھی اعتراف کیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ میزبان ممالک کے تعاون اور چیلنجز کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مستقل اور اصولی موقف کو تسلیم کرے۔

کانفرنس کے دوران، شرکاء نے مہاجرین کے مسئلے کے قانونی پہلوئوں کے بارے میں پاکستان کے تاریخی نقطہ نظر اور خاص طور پر افغان مہاجرین کے مسلسل بہائو کے جواب میں چار دہائیوں سے زائد عرصے تک ملک کی مسلسل سخاوت کا تجزیہ کیا۔ اگرچہ ابتدائی مرحلے میں بین الاقوامی حمایت اور یکجہتی کی نشاندہی کی گئی تھی، شرکاء نے اس وقت سے اب تک ابھرتے ہوئے چیلنجوں پر بھی غور کیا، جس میں محدود مالی وسائل اور بین الاقوامی حمایت میں کمی شامل ہے۔

بات چیت میں پیچیدہ علاقائی ماحول، انسانی بنیادوں پر تحفظات، قانونی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے، وسیع البنیاد مشاورت اور پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے اقدامات کے اثرات پر بھی بات ہوئی۔ میزبان ممالک کی رکاوٹوں اور حساسیت کو تسلیم کرنے، بین الاقوامی برادری اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں کے فہم و ادراک اور معاون رویہ اور مہاجرین کے اصل ممالک کے آئندہ طرز عمل کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=587375

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں