آئی پی آر آئی اور ڈی آئی ایف، یوکرین کے زیر اہتمام "قوموں کی خوراک اور توانائی کی سلامتی پر روس-یوکرین تنازعہ کے اثرات” کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد

84
آئی پی آر آئی اور ڈی آئی ایف، یوکرین کے زیر اہتمام "قوموں کی خوراک اور توانائی کی سلامتی پر روس-یوکرین تنازعہ کے اثرات" کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد

اسلام آباد۔27ستمبر (اے پی پی):خوراک اور توانائی پر روس-یوکرین جنگ کے اثرات کے موضوع پر ایک ویبینار میں مقررین نے کہا ہے کہ روس-یوکرین تنازعہ خوراک اور توانائی کی سپلائی چین کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے اور دنیا کو بحران کے دہانے پر دھکیل رہا ہے۔

اسی طرح یوکرین کی سپلائی چین پر ضرورت سے زیادہ انحصار بھی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے جبکہ اس صورتحال سے دنیا کے امن اور خوشحالی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( آئی پی آر آئی ) اور ایلکو کوچیریو ڈیموکریٹک انیشیٹوز فاؤنڈیشن (ڈی آئی ایف)، یوکرین کے زیر اہتمام "قوموں کی خوراک اور توانائی کی سلامتی پر روس-یوکرین تنازعہ کے اثرات” کے موضوع پر ایک ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔

بدھ کو جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق مقررین نے کہا کہ روسی جارحیت نے سپلائی چین کو کافی حد تک کمزور کر دیا ہے اور جنگ کے خاتمے تک اسے بحال نہیں کیا جا سکتا۔ خراب ہونے والی مصنوعات سے لدے جہاز یوکرین کی 12 سے زیادہ بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں، اور اسی طرح خطے اور اس سے باہر تیل اور گیس کی فراہمی میں رکاوٹوں کا معاملہ ہے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ گزشتہ 16 مہینوں میں مجموعی نقصان 137 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بندرگاہوں اور توانائی کے منصوبوں پر روسی کروز میزائلوں کے حملوں سے یورپ میں قدرتی گیس کی قیمتیں 130 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ سیشن کی صدارت صدر آئی پی آر آئی ڈاکٹر رضا محمد نے کی۔ دیگر مقررین میں پیٹرو برکوفسکی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ایلکو کوچیریو ڈیموکریٹک انیشیٹوز فاؤنڈیشن (ڈی آئی ایف)، یوکرائن میں پاکستان کے سابق سفیر میجر جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ، پاکستان میں یوکرین کے سابق سفیر ولادیمیر لاکوموف؛ یوکرین میں پاکستان کے سابق سفیر میجر جنرل (ر) وجاہت مفتی ، کیف سکول آف اکنامکس کے مرکز برائے خوراک اور زمینی استعمال کی تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر ماریا بوگونوس، اسسٹنٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ اینڈ پبلک پالیسی نسٹ ڈاکٹر فرح ناز، صدر اور شریک بانی ڈیکسی گروپ کیف ڈاکٹر اولینا پاولنکو اور سکول آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومینٹیز کے پرنسپل ڈاکٹر اشفاق حسن خان شامل تھے۔

مقررین نے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس ترقیاتی تعاون کے نئے شعبوں میں دوطرفہ طور پر بات چیت کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے اور انہوں نے خطے میں استحکام کا کردار ادا کیا ہے۔ پیٹرو برکوفسکی نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی مفادات کو ذہن میں رکھا جائے اور ایک ایسی پالیسی کی حمایت کی جائے جو ایک دوسرے پر منحصر دنیا میں اچھی طرح سے مربوط ہو۔ انہوں نے کہا کہ جارحیت کے اہم مشاہدات میں سے ایک یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یورپی یونین اور نیٹو روس کے حقیقی جارحانہ عزائم کو دیکھنے میں ناکام رہے۔

یوکرین میں پاکستان کے سابق سفیر میجر جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ نے روسی جارحیت کے خلاف ڈٹے رہنے پر یوکرائنی قوم کے حوصلے اور ہمت کی تعریف کی کیونکہ یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ اس حملے کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اپنی کم ترین سطح پر ہیں، اور نشاندہی کی کہ بطور سفیر ان کے دور میں کوئی اعلیٰ سطحی دورہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر تعاون دفاعی شعبے میں تھا اور تجارت کا حجم 100 ملین ڈالر سے کم تھا۔ انہوں نے ویزہ اور تجارتی سرگرمیوں میں توسیع کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہمیں سویلین اور ملٹری ہوائی جہازوں کے ساتھ ساتھ آٹوموبائلز کی تیاری کے شعبہ میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ تعلیم کے شعبے میں تعاون کی بہت گنجائش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یوکرین میں مشکل سے 300 سے 400 پاکستانی طلباء ہیں، جب کہ ہندوستانی طلباء کی تعداد 12000 سے زیادہ ہے۔ سفیر ولادیمیر لاکوموف نے دونوں ریاستوں کے سفارتی راستے کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ زراعت ایک امید افزا شعبہ ہے اور یہ تعاون نئی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے یوکرین کے باشندوں کو جاری تنازعہ کی وجہ سے درپیش مشکلات کو بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین اناج کی ڈیل پر مکمل عملدرآمد کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے، اور سپلائی چین میں بحران کی وجہ بندرگاہوں کی بندش اور پابندیوں کو قرار دیا۔ سابق سفیر میجر جنرل (ر) وجاہت مفتی کا کہنا تھا کہ 24 فروری کے حملے نے خطے میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آج تک یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت مکمل نہیں ہوئی اور کریمیا کے الحاق اور اس کے بعد روس کی جانب سے بحیرہ اسود کے محاصرے نے پوری جغرافیائی سیاسی صورتحال کو خراب کر دیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق نے اپنے خطاب میں روس پر پابندیوں کے مضمرات پر روشنی ڈالی۔