آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے، صنعتی بجلی کی طلب میں تقریباً 15 سے 16 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے،معاون خصوصی برائے توانائی و پٹرولیم تابش گوہر

65
توانائی کے شعبہ کی بہتری کے لئے بجلی کی پیداوار ، تقسیم و ترسیل کی مربوط اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، تابش گوہر

اسلام آباد۔30مارچ (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی و پٹرولیم تابش گوہر نے کہا ہے کہ آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے، صنعتی بجلی کی طلب میں تقریباً 15 سے 16 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے 70 دن میں نیب سے کلین چٹ نہیں آئی تو معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب ایک خودمختار ریاستی ادارہ ہے، نیب چند ایک آئی پی پیز کا مطالعہ کر رہا تھا، جن میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے نشاندہی کی گئی تھی، اسی دوران جب ہم نے تقریباً 40 آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی کا معاہدہ کیا اور ان کا ریکارڈ طلب کیا، نیب اس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کر رہا ہے، ہمیں امید ہے اس جانچ پڑتال میں کچھ بھی غلط نہیں نکلے گا، جیسے ہی نیب کی جانب سے ایک سرکاری لیٹر وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کو جاری ہو جائے گا کہ کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی تو پھر ادائیگی ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کل 9 آئی پی پیز کو تقریباً 85 ارب روپے کی پہلی قسط ادا کرنی تھی، اس کے لئے بھی 70 دن ہمارے پاس ایک گریس پریڈ ہے، آئی پی پیز کے ساتھ ان معاہدوں کی شفافیت کی بنیاد پر نظرثانی کی گئی تھی اور نیب بھی اس کی تصدیق کر دے گا، مجھے یقین ہے کہ جلد از جلد ہم اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں معاون خصوصی تابش گوہر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ گردشی قرضے کے انتظام کے حوالے سے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے وہ حتمی نہیں ہے، آئندہ دو سال پر مشتمل عرصے کے لئے پیشنگوئی کی گئی ہے کہ اگر ہم نے گردشی قرضے کے بہائو کو صفر کرنا ہے تو یقیناً ہمیں سبسڈی کی مقدار کو دگنا کرنا پڑے گا لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم نے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کار کمپنیوں میں خسارے کو کم کرنا ہے، ہم اس خسارے میں تقریباً 7 فیصد کمی لائیں گے جو تقریباً 334 ارب روپے کے لگ بھگ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے بجلی گھروں کے بجلی نرخوں میں بھی کمی لائی ہے اور اس کے مثبت اثرات بھی بجلی کے نرخوں پر پڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے گردشی قرضے کو صفر کرنا ہے تو بجلی کے نرخ میں ساڑھے چار روپے اضافہ کرنا پڑے گا لیکن ایسا قطعاً کوئی فیصلہ نہیں ہوا، آج بھی وزیراعظم عمران خان سے بات ہوئی ہے، ہم نے وزیراعظم کو کچھ تجاویز پیش کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں محصولات کی شرح فیصد میں کمی لائی جائے، اسی طرح آئی پی پیز میں قرضے کو ری فنانس یا ری سٹرکچر کیا جائے اور اس کی مدت کو اگلے تین سال تک لے کر جائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ صنعتی بجلی کی طلب پچھلے دو ماہ سے تقریباً 15 یا 16 فیصد بڑھ رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن اگر ہم نے رہائشی صارفین کے لئے بجلی کے نرخ بڑھائے تو صاحب حیثیت لوگ تو اپنے گھروں میں سولر لگا لیں گے اور جو لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں وہ بجلی کا استعمال کم کر دیں گے اور بجلی کی طلب میں کمی آئے گی، تمام صارفین کے تقریباً 85 فیصد لوگ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں، ان 85 فیصد لوگوں کے لئے بجلی کے نرخوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا لیکن صنعتکاروں کے لئے بجلی کے نرخوں میں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ ان کے نرخوں میں آئندہ دو سالوں میں کم سے کم اضافہ کیا جائے۔