آزادنہ تفتیش کے معاملات میں مداخلت کے تاثر پر لئے گئے از خود نوٹس کی سماعت 14 جون 2022 تک ملتوی، ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ کار میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت

52
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ

اسلام آباد۔3جون (اے پی پی):سپریم کورٹ نے آزادنہ تفتیش کے معاملات میں مداخلت کے تاثر پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت 14 جون 2022 ء تک کیلئے ملتوی کر دی ۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت کو ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ کار میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے نیب اور ایف آئی اے میں زیر تفتیش تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے ۔

جمعہ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے معاملہ پر سماعت کی ۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ بیرون ملک سفر اور آزادنہ نقل وحرکت ہر شہری کا آئینی حق ہے،کسی فرد کے خلاف نیب میں تحقیقات یا کسی ایجنسی کی تحقیقات کے سبب نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکتا،وفاقی حکومت کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے پہلے نقل و حرکت کی آزادی اور اس پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیتی ہے، حکومت نے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی،وفاقی کابینہ نے ای سی ایل رولز ترمیم میں لکھا کہ ان کا اطلاق ماضی سے ہوگا،ای سی ایل رولز میں ترمیم وفاقی حکومت کی صوابدید ہے،وفاقی کابینہ میں شامل افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجہ آزادنہ حکومتی امور کی انجام دہی ہے،کسی قانون میں نہیں لکھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے سبب نیب سے مشاورت ضروری ہے،ضابطہ اخلاق کے تحت ذاتی نوعیت کا کیس وزیر کے پاس نہیں جاتا۔

اس دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے، نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا،نیب کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے، اگر نیب یا کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی کے خلاف تحقیقات کر رہا ہو تو اس کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے پہلے ادارے سے مشاورت کی جائے ،ہم چاہتے ہیں قانون پر عملدرآمد کر کے سب سے یکساں انصاف ہو،دیکھنا ہو گا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیوں کیا گیا،ٹرائل کے دوران پراسیکیوٹر کہے کہ ریکارڈ نہیں مل رہا تو تکلیف ہوتی ہے،

نیب کے کیسز میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ ریکارڈ نہیں ملا،کسی کیس میں مواد نہ ہو تو الگ بات ہے،عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے،ایسا نہ ہو کہ مواد موجود ہو اور گواہان کو خاموش کروا دیا جائے،نیب کے جن مقدمات میں شواہد نہیں ہیں انہیں واپس لے،پراسیکیوشن کے درست کام نہ کرنے سے نظام انصاف پر برا اثر پڑتا ہے،نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے،یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان کی عدلیہ 128ویں نمبر پر ہے،پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی،کسی بے گناہ کو جیل میں نہیں رہنا چاہیے،غلط فیصلے اعلی عدلیہ سے تبدیل ہو جاتے ہیں،نوے فیصد فیصلے اعلی عدلیہ میں برقرار رہتے ہیں،عدالتی فیصلوں کے بعد لوگ اللہ کے نام پر معاف کر دیتے ہیں

،دیکھنا ہوگا سنگین جرائم والوں کو معافی ملنی چاہیے یا نہیں،حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں ،ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے،ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں،اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایمانداری،منصفانہ اور شفافیت کو مد نظر رکھا جائے ۔ اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ آپ سول سرونٹ ہیں کسی کی مداخلت تسلیم نہ کریں، اگر کوئی دبائو ڈالتا ہے تو عدالت کو بتائیں آپ کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے کہا ہے کہ بیرون ملک جانا بنیادی حق ہے،اگر بیرون ملک جانا بنیادی حق ہے تو ای سی ایل کا پھر کیا جواز رہ گیا ۔

جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ میری رائے میں تو ای سی ایل ہونی ہی نہیں چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس دوران عدالت کو بتایا کہ ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعد 30 لوگ بیرون ملک گئے،23 افراد واپس آگئے ،7 افرادواپس نہیں آئے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ ہماری تشویش ہے کہ آزادانہ تحقیقات ہوں اور شفاف ٹرائل ہو،ریکارڈ گم ہو جائے گواہوں کو خاموش کرا دیا جائے یہ نہیں ہونا چاہیے۔عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر آبزرویشن دی کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اس دوران عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نیب کو مقدمات کا جائزہ لینے کیلئے وقت دیا جائے، نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے بعد ہی احکامات پر عمل ممکن ہوگا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت کی کہ نیب پر اگر کوئی دبائو ڈالے تو وہ عدالت کو آگاہ کریں، حکومت سوچ سمجھ کر نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کرے ،معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں حکومت سے اچھی توقع ہے،توقع ہے صاف، ایماندار، قابل اور نیک نام شخص کو چیئرمین نیب لگایا جائے گا ،سسٹم کے باہر سے کوئی دبائو قبول کیا جائے نہ ہی تعیناتی کی جائے، نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کیخلاف انتقام کیلئے استعمال نہ ہو۔

عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ایف آئی اور نیب کے تمام ہائی پروفائل مقدمات کے شواہد اور ریکارڈ کی سافٹ کاپی سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے ، اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا، ایف آئی اے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر کے علاوہ دیگر افسران کو تبدیل کر سکتا ہے۔