”آزادی کے 75 سال: جامع قومی سلامتی کا حصول“ کے موضوع پر دو روزہ اسلام آباد کنکلیو شروع ہوگیا، سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل (ر) زبیر محمود حیات اور دیگر مقررین کا خطاب

76

اسلام آباد۔7دسمبر (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کے زیر اہتمام ”آزادی کے 75 سال: جامع قومی سلامتی کا حصول“ کے موضوع پر دو روزہ اسلام آباد کنکلیو 2022 بدھ کو یہاں شروع ہوگیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری نے افتتاحی سیشن میں شرکاءکا خیر مقدم کرتے ہوئے ادارہ اور اسلام آباد کنکلیو کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی جبکہ سابق سینیٹر و سابق وفاقی وزیر جاوید جبار نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

پہلے سیشن سے سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل (ر) زبیر محمود حیات، ڈین فیکلٹی آف ایرو اسپیس اور اسٹریٹجک اسٹڈیز ایئر یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر عادل سلطان، وائس ایڈمرل (ر) احمد سعید، سی ای او نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک ائیر کموڈور ڈاکٹر لیاقت اللہ اقبال، انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر اے سی ڈی سی ملک قاسم مصطفی نے بھی خطاب کیا۔

سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل (ر) زبیر محمود حیات نے ”پاکستان کے قومی دفاع کے 75 سالوں کے جائزہ“ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ، پاکستان کو لاحق خطرہ کے تین اجزاءسیاسی، نظریاتی اور عسکری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جس خطرے کا سامنا ہے اس میں بھارت کی طرف سے خطرات کے تینوں عناصر شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محدود اور ہمہ گیر جنگوں کے خلاف پاکستان نے کامیابی سے اپنی سرحدوں کا دفاع کیا ہے، پاکستان مسلط کی گئی ہائبرڈ جنگ کے خلاف دفاع جاری رکھے ہوئے ہے، اس نے گزشتہ بیس سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ بیرونی سپانسر شدہ اندرونی عدم استحکام کے خلاف دفاع کیا ہے، پاکستان نے تمام چیلنجز کا ہمت اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ہے، پاکستان نے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیار متعارف نہیں کروائے اور نہ ہی اس نے پہلا جوہری تجربہ کیا بلکہ پاکستان نے بھارت کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کی۔

قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر اے سی ڈی سی ملک قاسم مصطفی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ پاکستان نے 75 سال پر محیط ایک ناقابل یقین سفر طے کیا ہے اور اس نے اپنی خودمختاری کے تحفظ اور اندرونی اور بیرونی سلامتی کے چیلنجوں سے تحفظ کے لیے اپنی تمام ضروریات پوری کی ہیں۔

پاکستان امن کا خواہاں ہے جبکہ اس کا پڑوسی بھارت ہتھیاروں کی تیاری اور جارحانہ نظریات پر عمل پیرا ہے جو علاقائی سلامتی کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ پاکستان فضائی، زمینی اور سمندر کے ساتھ ساتھ بیرونی خلا اور سائبر ڈومین میں دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز وائس ایڈمرل (ر) احمد سعید نے ”میری ٹائم سیکیورٹی آف پاکستان“ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری ٹائم سیکورٹی کو روایتی اور غیر روایتی سیکورٹی خطرات میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں فوجی سیکورٹی شامل ہے، امریکہ کی ایشیا پیسیفک حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا محور بھارت، جاپان اور آسٹریلیا ہے اور اس کے پاکستان پر منفی اثرات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے بحری منصوبوں کے جواب میں پاکستان نے چین اور ترکی کے ساتھ مل کر بحری جہاز اور آبدوزیں بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن اس کا ایک مقامی جزو بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سمندری دفاع کو یقینی بناتے ہوئے ہمیں بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق گرین پالیسیاں اپناتے ہوئے ایک ذمہ دار میری ٹائم قوم کی طرح برتائو کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری ٹائم سیکیورٹی قومی سلامتی کا ایک لازمی حصہ ہے جس پر قومی سطح پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سی ای او نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک ائیر کموڈور ڈاکٹر لیاقت اللہ اقبال نے ”پاکستان کی دفاعی انڈیجنائزیشن“ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اور انسانی وسائل کی ترقی کی دفاعی صلاحیتوں میں ترقی کر رہا ہے، انہوں نے نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کے کردار کا خاص طور پر ذکر کیا جو پاکستان ایئر فورس اور حکومت کا مشترکہ منصوبہ ہے جسے پی اے سی کامرہ اور پی اے ایف بیس منہاس کے ارد گرد پاکستان کے پہلے ایرو اسپیس کلسٹر اور اسمارٹ سٹی کے طور پر تیار کیا جارہا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے انڈیا سٹڈی سینٹر نے اسلام آباد کانکلیو 2022 کے دوسرے ورکنگ سیشن کا اہتمام کیا جس کا عنوان ”آزادی کے 75 سال: جنوبی ایشیا میں امن اور خوشحالی کی تلاش“ تھا۔ تقریب کی نظامت انڈیا اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی نے کی۔ ورکنگ سیشن کے لیے انڈیا اسٹڈی سنٹر نے سفارت کاری، اقتصادیات اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبوں میں متعدد ماہرین کو مدعو کیا تھا۔ سیشن کے کلیدی مقرر وزارت خارجہ کے سابق سیکرٹری جلیل عباس جیلانی تھے۔

انہوں نے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں طرف کی جرات مند قیادت اور سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت پر زور دیا۔ مزید برآں انہوں نے سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے مثبت پہلوئوں کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ گیمبیا کے سابق چیف جسٹس علی نواز چوہان نے ”تنازعہ کشمیر کا حل: جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے ضروری“ کے عنوان سے اپنے خطاب میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل بین الاقوامی قانون کے تحت ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل میں تجارت، سرمایہ کاری اور اختراعی ڈویژن کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روپا چندا نے ”جنوبی ایشیا میں علاقائی اقتصادی انضمام کے امکانات“ کے موضوع پر اپنے تاثرات پیش کیے۔ انہوں نے خطے میں ریاستوں کے درمیان رابطے کو بڑھانے کے پلیٹ فارم کے طور پر جنوبی ایشیا میں خدمات کے انضمام کے امکانات پر کا خاص طور پر ذکر کیا۔ ڈائریکٹر کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک سائوتھ ایشیا سنجے وششت نے موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ خطے کو درپیش سب سے اہم مسئلہ ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سیلاب اور خشک سالی سے نبرد آزما ہونے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنا ضروری ہے، اقدامات نہ کرنے کی صورت میں خطے میں غربت کی سطح کو بڑھ سکتی ہے۔ سنٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ نے اسلام آباد کانکلیو کے تیسرے ورکنگ سیشن کی میزبانی کی جس کا عنوان ”پاکستانز اکنامک فرنٹیئرز (افغانستان، ایران، جی سی سی اور افریقہ)“ تھا۔ سیشن کی نظامت ڈائریکٹر کیما آمنہ خان نے کی۔

اس موقع پر سابق سفیر منصور احمد خان، سابق افغان وزیر انجینئر یوسف پشتون، پاکستان میں سابق افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال، پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی عواد اسیری اور پاکستان میں ایتھوپیا کے سفیر جیمل بیکر عبد اللہ نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر علی عواد اسیری نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے تباہی کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران کو روکنے کے لئے سعودی عرب اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ یہ سیاسی استحکام کے حصول اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات ولی عہد محمد بن سلمان کے ذاتی عزم سے واضح ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کی فوری مالی ضروریات کو پورا کریں گے بلکہ توانائی کے شعبے میں طویل مدتی سرمایہ کاری کی ضمانت بھی دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کو آگے لے جانے کی صلاحیت، ہمت اور عزم رکھتے ہیں اور وہ سعودی قوم اور اس کی قیادت پر بھروسہ کر سکتے ہیں جبکہ معاشی اور سیاسی استحکام کے لئے جو بھی حمایت درکار ہو سعودی عرب اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔

سابق سفیر نے کہا کہ سعودی وژن 2030 کے ساتھ پاکستان کے تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات اور اس کی ہنر مند افرادی قوت کو میگا ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کرنے کے لئے بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے جبکہ انہوں نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ پیشہ وارانہ تربیت اور تجارتی روابط کو فروغ دینے جیسے تدارکاتی اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ پاک۔سعودی اقتصادی تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے جس کے تحت سعودی عرب اپنے غیر ملکی ذخائر میں اضافہ کرتے ہوئے پاکستان کے ترقیاتی شعبے میں طویل مدتی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔

سابق سفیر نے کہا کہ سعودی قیادت پاکستان میں ریفائنری، پٹرو کیمیکل کمپلیکس، کان کنی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے پرعزم ہے جبکہ دیگر شعبوں جیسے ٹیکسٹائل، کھیل، چمڑے کے سامان اور جراحی کے آلات میں سعودی سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کی بھی زبردست گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، سیکورٹی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں ایک منفرد، گہرا اور پائیدار رشتہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ برادرانہ رشتہ ہماری متحرک اور بصیرت والی قیادت میں نئی بلندیوں کو چھولے گا۔ تقریب میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین سابق سفیر خالد محمود اور دیگر مقررین نے بھی شرکت کی۔