اسلام آباد۔29اپریل (اے پی پی):آسٹریا کے انسٹیٹیوٹ برائے یورپی و سلامتی پالیسی (اے آئی ای ایس) کے وفد نے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (اپری) کا دورہ کیا اور ایک مباحثہ میں شرکت کی۔ اس موقع پر شرکا نے عالمی سطح پر ہونے والی اہم پیش رفتوں اور پالیسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وفد میں سابق سینئر ایگزیکٹو اقوام متحدہ ڈاکٹر افسر راٹھور، صدر آسٹریائی انسٹیٹیوٹ برائے یورپی و سلامتی پالیسی (اے آئی ای ایس) ڈاکٹر ورنر فاسلا بینڈ(جو ورچوئلی شریک ہوئے)، ڈائریکٹر اے آئی ای ایس متوقع آئندہ صدر مائیکل اور سابق اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل برائے موسمیاتی تبدیلی، اقوام متحدہ ڈاکٹر فرانز بائومن شامل تھے۔
مباحثے کا آغاز موجودہ جیو پولیٹیکل پیش رفتوں اور ان کے وسیع تر اثرات کے جائزے سے ہوا۔ شرکا نے عالمی اتحادوں کی بدلتی نوعیت، اقتصادی اور عسکری طاقت میں تبدیلیوں اور پیچیدہ سلامتی کے ماحول پر اظہار خیال کیا۔ بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت اور کثیرالطرفہ تعاون کو درپیش چیلنجز کو اہم رجحانات کے طور پر اجاگر کیا گیا۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ استحکام کے قیام اور پرامن تعاون کو فروغ دینے کے لیے مسلسل مکالمے اور بدلتے حالات کے مطابق ڈھلنے کی ضرورت ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور غیر قانونی ہجرت کوباہم مربوط چیلنجز کے طور پر زیر بحث لایا گیا جو کئی خطوں کو درپیش ہیں۔ مباحثے میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ہجرت کے رجحانات کو متاثر کر رہی ہیں، جہاں شدید موسمی حالات، سمندری سطح میں اضافہ اور وسائل کی کمی کے باعث مزید افراد بے گھر ہو رہے ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط علاقائی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا جو فوری انسانی ضروریات کے ساتھ ساتھ نقل مکانی کے طویل مدتی عوامل کا بھی احاطہ کرے۔ علاقائی نظاموں کو مضبوط بنانے، ڈیٹا کے تبادلے کو بہتر بنانے اور پائیدار انفراسٹرکچر کی ترقی کو تعاون کے اہم شعبے قرار دیا گیا۔ خوراک کے تحفظ اور بھوک کے خاتمے کے عالمی ہدف (ہنگر زیرو) پر بھی تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ مباحثے میں خوراک کے عدم تحفظ کو سماجی استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے بڑا خطرہ تسلیم کیا گیا۔
اس بات پر اتفاق ہوا کہ زرعی نظام کو مضبوط بنانا، خوراک کی ترسیل کے نیٹ ورکس کو بہتر کرنا اور موسمیاتی تبدیلی، تنازعات اور معاشی اتار چڑھائو کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کے خلاف لچک پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ کے کردار کو بھوک کے خاتمے کے لیے پالیسیوں اور اقدامات کے فروغ میں مرکزی حیثیت دی گئی، خاص طور پر ان خطوں میں جو زیادہ کمزور ہیں۔
تعلیمی پالیسی اور عوامی آگاہی کو عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے معاشروں کی تعمیر کے دو اہم ستون قرار دیا گیا۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ تعلیمی نظام کو بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کو پائیداری، طرز حکمرانی اور شہری ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی جا سکے۔
عوامی آگاہی مہمات کو پیچیدہ مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی، ہجرت اور خوراک کے تحفظ کی بہتر تفہیم اور باشعور و فعال شہریوں کی شمولیت کے فروغ کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ مباحثے کا اختتام اس بات پر اتفاق کے ساتھ ہوا کہ علمی اداروں، پالیسی سازوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے مابین مسلسل رابطہ عالمی چیلنجز کے موثر حل اور مشترکہ تفہیم کے فروغ کے لیے نہایت اہم ہے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=589818