اسلام آباد۔2فروری (اے پی پی):پاکستانی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعدادمختلف انٹر نیٹ ایپس پر مبنی ٹرانسپورٹیشن سروسز میں شامل ہو کر رکاوٹوں کو توڑ کر مالی خودمختاری اور خود کفالت حاصل کر رہی ہے۔مردوں کی بالادستی والی صنعت میں خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد ٹیکسی ڈرائیور روایات کے برعکس مسافروں سے تحسین اور عزت حاصل کر رہی ہے۔
ایک کیب ڈرائیور آمنہ نے کہا کہ کیب ڈرائیور بننا ایک آزادانہ تجربہ ہے، میں دنیا کو دکھانا چاہتی ہوں کہ پاکستانی خواتین مضبوط، با صلاحیت اور خود مختار ہیں اور ہم صرف ڈرائیور نہیں ہیں بلکہ ہم کاروباری، کمانے والے اور تبدیلی لانے والے بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نقل و حمل کے لیے اپنے شوہر پر انحصار کرتے کرتے تھک گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب میں اپنی مرضی کی مالک ہوں اور مجھے ہر روز نئے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی کے لحاظ سے ایک آن لائن سروس ہونے کے ناطے سواری کا تمام ڈیٹا احتیاط سے ریکارڈ اور محفوظ کیا جاتا ہے جو ڈرائیوروں اور مسافروں دونوں کے لیے ایک محفوظ اور شفاف تجربہ کو یقینی بناتا ہے۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی رائیڈ ہیلنگ انڈسٹری میں خواتین ڈرائیوروں کے اضافے نے نہ صرف معاشی مواقع فراہم کیے ہیں بلکہ سماجی اصولوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
ایک 35 سالہ ڈرائیور ثنا نے کہا کہ بطور ڈرائیور ایپ پر مبنی ٹرانسپورٹیشن سروس میں شامل ہونا میرے لیے گیم چینجر ثابت ہوا ہے۔میں اکیلی ماں کے طور پر اپنے کاموں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی لیکن اب میں اپنے بچے اور مستقبل کے لیے کچھ رقم بچانے کے قابل بھی ہوں۔انہوں نے کہا کہ جب میں نے پہلی بار گاڑی چلانا شروع کی تو میرے خاندان اور رشتہ دار شکوک و شبہات کا شکار تھے لیکن اب ان سب کو مجھ پر فخر ہے اور میں نے اپنے کچھ دوستوں کو بھی اس سروس میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس شعبہ میں موجود تمام لڑکیاں اپنے آپ کو بااختیار بنائیں،گاڑی لیں لیں اور ٹیکسی ڈرائیور بنیں!۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک آزادانہ کیریئر ہے جو آپ کو خود مختار بننے اور اپنے مالی مستقبل کو محفوظ بنانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔