اسلام آباد۔1جولائی (اے پی پی):وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ مؤثر مالی اور مانیٹری پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے اور یہ اب پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جب 2024 میں اقتدار سنبھالا تو مہنگائی 28 فیصد تھی جو اب کم ہو کر 4.5 فیصد تک آ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے بغیر کسی ضمنی یا منی بجٹ کے معاشی استحکام حاصل کیا اور پالیسی ریٹ بھی 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد تک آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی توقعات سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔وزیر مملکت نے بتایا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تین سالہ ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) کامیابی سے طے پا گئی ہےجو حکومت کی معاشی حکمت عملی کا اہم ستون ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی شبہات کے برعکس یہ معاہدہ بروقت، جامع اور بغیر کسی اضافی مالی بوجھ کے مکمل ہوا۔بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 8 ارب ڈالر رہا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 20 جون 2025 تک 14 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو کئی سالوں میں سب سے بلند سطح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذخائر میں کمی پاکستان کی معاشی کمزوری رہی ہے مگر تجارتی توازن کی بہتری اور درآمدات پر انحصار میں کمی سے یہ رجحان تبدیل ہوا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر نے مالی سال کے دوران ریونیو کلیکشن میں 26 فیصد نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔وفاقی بجٹ 2025-26 کے حوالے سے وزیر مملکت نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے تعمیری کردار ادا کیا اور بجٹ میں تمام جماعتوں کا تعاون حاصل رہا، بجٹ کا مقصد معاشی استحکام کو مستحکم کرتے ہوئے برآمدات پر مبنی اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا وژن ایک ایسی معیشت کی تعمیر ہے جو زیادہ زرمبادلہ کمائے، بیرونی انحصار کم کرے اور ہر طبقے کو خوشحالی میں شامل کرے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی نئی پانچ سالہ برآمداتی پالیسی کے تحت اضافی کسٹمز ڈیوٹیز کا خاتمہ اور زیادہ سے زیادہ درآمدی محصولات کو 15 فیصد تک محدود کیا جائے گا جس سے مشینری اور خام مال کی لاگت کم ہو گی اور برآمدی صنعتیں عالمی سطح پر مزید مسابقتی بنیں گی۔تنخواہ دارکے لئے ریلیف پر بات کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ انکم ٹیکس میں کمی کی گئی ہے جس سے تنخواہ دار طبقے کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے، آنے والے مالی سال کے لئے مہنگائی کی شرح 6.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے جبکہ تنخواہوں میں اضافہ اس شرح سے زیادہ ہوگا جس سے عوام کی حقیقی آمدن محفوظ رہے گی۔سماجی تحفظ کے حوالے سے وزیر مملکت نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے مختص رقم کو گزشتہ سال کے 460 ارب روپے سے بڑھا کر رواں سال 592 ارب روپے کر دیا گیا ہےجس سے تقریباً ایک کروڑ افراد مستفید ہوں گے۔
اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ ٹیکس دہندگان ملک کے ریونیو نظام کے سب سے اہم شراکت دار ہیں اور حکومت ان کے ساتھ اعتماد کے رشتے کی بحالی کے لئے پرعزم ہے۔انہوں نے زور دیا کہ ٹیکس کی ادائیگی سہولت، شفافیت اور منصفانہ طریقے سے ہونی چاہئے نہ کہ دباؤ یا جبر کے ذریعے۔انہوں نے کہاکہ جو فرد دیانتداری سے ٹیکس دیتا ہے وہ ایف بی آر اور قوم کا سرمایہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر نے گزشتہ سال کے دوران ادارے کے رویے میں تبدیلی اور اسے عوام دوست بنانے کے لئے داخلی اصلاحات کی ہیں۔چیئرمین ایف بی آر نے واضح کیا کہ ٹیکس وصولی میں کسی قسم کے دباؤ کی اجازت نہیں دی جائے گی،ہمارے افسران سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ مقررہ حد سے زیادہ ریونیو جمع کریں بلکہ ان سے صرف اتنا ہی جمع کرنے کی توقع ہے جو قانون کے مطابق بنتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر ایک ایسے ماحول کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں ٹیکس دہندگان کے ساتھ باہمی احترام اور شراکت داری پر مبنی تعلق قائم ہو۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ نفاذ صرف اس وقت کیا جائے گا جب واقعی ضرورت ہو۔کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ مالی سال 2024-25 میں ایف بی آر کا ریونیو ٹو جی ڈی پی تناسب 10.2 فیصد تک پہنچ گیا جو گزشتہ دس برسوں میں سب سے زیادہ ہے، گزشتہ سال جون میں یہ تناسب صرف 8.8 فیصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پائیدار معاشی ترقی کے لئے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔