اسلام آباد۔11ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر منصوبہ بندی،ترقی واصلاحات احسن اقبال نے بدھ کو پی ایس ڈی پی 2023-24ء کے سالانہ جائزے کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ملک کے موجودہ معاشی چیلنجوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس میں وفاقی اور صوبائی سیکرٹریز، حکومتی نمائندے اور حکام نے شرکت کی۔ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کو بے شمار معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور موجودہ معاشی حالات میں ترقیاتی بجٹ بنانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ 2013 میں ترقیاتی بجٹ محض 340 ارب تک محدود تھا جسے ہم نے 2018 تک ایک ہزار ارب روپے تک پہنچایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 2018 میں نام نہاد تبدیلی مسلط نہ کی جاتی تو آج یہ ترقیاتی بجٹ 3 ہزار ارب تک پہنچ چکا ہوتا۔ لیکن افسوسناک طور پر آج 2024 میں بمشکل 1100 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ پر پہنچے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ 1100 ارب روپے کا بجٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں ترقیاتی منصوبوں پر کس قدر سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں ترقیاتی بجٹ جو 12 فیصد تھا آج سکڑ کر چار فیصد تک آگیا ہے۔ اگر ملک میں پالیسی کا تسلسل ہوتا تو آج ترقیاتی بجٹ 15 فیصد تک پہنچ چکا ہوتا۔ وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ وزارت اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترقیاتی بجٹ کا مطالبہ یا منصوبے بناتے وقت قومی ترجیحات کا خیال رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ترقیاتی بجٹ کے غلط استعمال کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ہمیں ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا ازسر نو تعین کرنا ہوگا۔ احسن اقبال نے کہا کہ آج بجٹ، سبسڈیز، تنخواہوں اور پنشنوں سمیت بہت سارے امور قرض کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں قرضوں کی بجائے ملکی وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا اور حکومتی آمدن بڑھانے اور اخراجات میں توازن قائم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے منصوبوں کا آغاز ہی نہ کیا جائے جن کا عوام کی زندگیوں پر کوئی اثر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ 2035 تک پاکستان کو ایک کھرب ڈالر کی معیشت بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔