اخلاقیات کا درس دینے والوں نے اپنے دور حکومت میں سپریم کورٹ پر حملے کرائے، وفاقی وزیر برائے شہری ہوا بازی غلام سرور خان

71

اسلام آباد۔23جون (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے شہری ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ اخلاقیات کا درس دینے والوں نے اپنے دور حکومت میں سپریم کورٹ پر حملے کرائے، سیکیورٹی اداروں اور ججوں کو نشانہ بنایا، درحقیقت یہ صرف اور صرف محاذ آرائی کی سیاست سمجھتے ہیں، دنیا بھر میں کورونا کی صورتحال کے باعث ایوی ایشن کے شعبے کو 500 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، پنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو رنگ روڈ کا منصوبہ ضرور دیں گے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں شہری ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 2018ءمیں جب یہ ایوان وجود میں آیا اور عمران خان قائد ایوان منتخب ہوئے تو ان کے پہلے خطاب کے موقع پر ہلڑ بازی، طعنے اور نعرے بازی کی گئی۔ ایک منتخب وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہا گیا، انہیں پہلی تقریر کرنے نہیں دی گئی۔ مشترکہ اجلاسوں میں تینوں صدارتی خطابات پر بدترین ہلڑ بازی کی گئی۔ صدر تو وفاق پاکستان اور ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔

وزیر خزانہ کو بجٹ تقریر کرنے نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ تقریر پر جو کچھ کہا گیا ہمارے سر شرم اور ندامت سے جھک گئے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں پیش آنے والے واقعہ میں دو حکومتی بنچوں سے معزز ارکان زخمی ہوئے اور الزام حکومتی بنچوں کو دیا جارہا ہے۔ یہ غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ بدنظمی اپوزیشن بنچوں سے کی گئی۔ ماضی میں ان لوگوں نے 1988ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا اور ان کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئی۔

انہوں نے سپریم کورٹ پر حملے کرائے، سیکیورٹی اداروں اور ججوں کو نشانہ بنایا۔ یہ درحقیقت محاذ آرائی کی سیاست سمجھتے ہیں۔ یہ تلخ حقائق ہیں جو انہیں تسلیم کرنے چاہئیں اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کوویڈ کی صورتحال اور نامساعد حالات کے باوجود اچھا بجٹ پیش کیا گیا۔ دنیا کی بڑی بڑی ایئرلائنز کو کورونا کی صورتحال میں 500 ارب ڈالر کا نقصان ہوا،لوگوں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ ہم نے کسی کو نوکری سے نکالا۔ مشکلات کے باوجود ہم نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا۔

معیشت بہتر ہو رہی ہے اس کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ ان کے دور حکومت میں زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہو کر 9 ارب ڈالر تک آگئے، گردشی قرضہ ن کے دور میں بڑھا۔ ان کی درآمدات زیادہ اور ایکسپورٹ کم تھیں۔ ہم نے ایکسپورٹ سے وابستہ صنعتوں کو مراعات دیں جس کی وجہ سے ایکسپورٹ 24 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ترسیلات زر 28 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1970ءکے بعد کوئی نیا ڈیم نہیں بننے دیا گیا۔ ڈیموں سے ہم سستی بجلی بنا سکتے ہیں۔ 1994ءمیں آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدے ہوئے۔ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت بڑھی ان کی مہنگی بنائی ہوئی بجلی پاکستان کے عوام پر بجلی بن کر گری۔

انہوں نے کہا کہ ان کی پالیسیاں ہمیشہ درآمدات پر رہیں۔ ہم نے گندم کی امدادی قیمت 1300 سے 1800 فی من کی جس سے ہمارا کاشتکار خوشحال ہوا۔ انہوں نے تجویز دی کہ زرعی مداخل پر سبسڈی دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پرانا پاکستان اس لئے چاہتے ہیں کہ اس طرح لوٹ کھسوٹ ہو، ٹیٹیاں چلیں۔ نئے پاکستان میں بلاامتیاز احتساب ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اراضی سنٹرز میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے۔ ایسے کرپٹ ادارے ختم کئے جائیں۔

شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ وہ گھٹنے پکڑنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ آج یہ کس کے گھٹنے اور پاوں پکڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پنڈی اور اسلام آباد کو رنگ روڈ منصوبہ کیوں نہیں دیا اس وجہ سے پنڈی کے لوگوں نے انہیں مسترد کیا، رنگ روڈ کا منصوبہ ہمارے دور میں شروع ہو کر مکمل ہوگا۔