
اسلام آباد ۔ 31 جنوری (اے پی پی) سینٹ کے ارکان نے کہا ہے کہ حکومت نے معاشی بحالی کے لئے اصلاحات کا پیکج دیا ہے، برآمدات میں اضافہ ری فنڈز کی ادائیگی، سٹاک ایکس چینجز اور صنعتی شعبے کی بہتری کے ساتھ ساتھ ایس ایم ایز کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، غیر یقینی کی صورتحال اب ختم ہو جائے گی، حکومت اور اپوزیشن کو عام آدمی کی بھلائی کے لئے مل بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہئیں، مہنگائی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، جب تک مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا، عام آدمی کی مشکلات کم نہیں ہوں گی، ماضی کا ذکر کرنے کی بجائے اب آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، آئندہ کے منصوبوں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، خام مال کی بجائے ملک سے تیار مصنوعات کو برآمد کرنا چاہیے اس سے ملک کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو یہاں ایوان بالا کے اجلاس کے دوران ضمنی مالیاتی (دوسرا ترمیمی) بل 2019ءپر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ اس بجٹ میں عام آدمی کیلئے کچھ نہیں ہے، بجٹ روزگار پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے، بیروزگاری کو ختم کرنا ہو گا، عام آدمی سبزی اور آٹے کے بھاﺅ کو دیکھتے ہیں ان کو اس میں کوئی ریلیف ملا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب افراط زر کی شرح بڑھے گی تو عوام کے لئے مسائل پیدا ہوں گے، گروتھ ریٹ میں اضافہ کسی بھی زرعی ملک کے لئے مشکل نہیں، بلوچستان میں زمین بنجر پڑی ہے، زرعی شعبے کو سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی پالیسی پر بھی ایوان میں بحث ہونی چاہیے، روپے کی قدر میں کمی سے معیشت پر دباﺅ بڑھتا ہے، اپوزیشن اور حکومت مل کر عام آدمی کی بہتری کے لئے فیصلے کریں۔ سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ ہماری معاشی صورتحال دنوں میں خراب نہیں ہوئی بلکہ یہ کئی عشروں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، اسے ٹھیک کرنے میں بھی وقت لگے گا، کراچی میں وزیراعظم سے ملاقات میں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت اور سٹاک ایکس چینج کے نمائندوں نے کچھ تجاویز دی تھیں جن میں سے بعض تجاویز پر عمل کرنے کے لئے اقدامات شروع ہو چکے ہیں، مزید چیزیں بھی سامنے آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے معاشی بحالی کے لئے اصلاحات کا پیکج دیا ہے، سٹاک ایکس چینج صنعتی شعبے کی بہتری، ایس ایم ایز کی ترقی، برآمدات میں اضافہ، ری فنڈز کی ادائیگی جیسے اقدامات اور برآمد کنندگان کو سہولیات کی فراہمی اس کا حصہ ہے، غیر یقینی کی صورتحال ان اصلاحات کے نتیجہ میں ختم ہوں گی اور معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ سینیٹر ثمینہ سعید نے کہا کہ خراب معیشت موجودہ حکومت کو ورثے میں ملی ہے، حکومت صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے، زراعت میں کاشتکاروں کے لئے قرضوں کی سہولیات فراہم کی گئی ہے، ڈیزل انجن پر دی جانے والی رعایت سے بھی کاشتکار فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سینیٹر ڈاکٹر غوث محمد نیازی نے کہا کہ جب تک ملک میں استحکام، سیکورٹی اور کاروبار دوست ماحول نہ ہو، سرمایہ کاری نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی ملک میں لانے کے لئے اقدامات کرے تاکہ ادویات اور گاڑیوں سمیت مصنوعات یہاں تیار ہوں اور ان کی قیمتوں میں بھی کمی آئے۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو کے استعمال پر ٹیکس لگانے کی بات کی گئی تھی لیکن ابھی تک یہ ٹیکس نہیں لگایا گیا، حکومت کو یہ ٹیکس لگانا چاہیے تاکہ اس سے آمدنی بھی بڑھے اور تمباکو کے استعمال کی حوصلہ شکنی بھی ہو۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ حکومت اور حکومتی جماعت کو تنقید سننے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 62 فیصد، سندھ میں 30، خیبرپختونخوا میں 15 اور پنجاب میں 13 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، مہنگائی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، جب تک مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا، عام آدمی کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔ سینیٹر بہر مند تنگی نے کہا کہ منی بجٹ میں عوام کو سہولیات کی فراہمی، بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے وہ اقدامات نظر نہیں آ رہے جن کی ہم نے توقع کی تھی، ملکی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے بھی اقدامات کرے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ موجودہ حکومت کو ماضی کا ذکر کرنے کی بجائے اب آگے کی طرف دیکھنا چاہیے اور آئندہ کے منصوبوں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ ہماری برآمدات اور درآمدات میں بہت بڑا فرق ہے اور ہمارا تجارتی خسارہ بہت بڑھ چکا ہے، پی آئی اے کی صورتحال سب کے سامنے ہے، موجودہ حکومت اور موجودہ وزیر ریلوے کے اقدامات کی وجہ سے ہم ریلوے میں بہتری دیکھ رہے ہیں، غیر ملکی مالیاتی اداروں کی طرف سے جی ڈی پی کی شرح نمو کے حوالے سے جو اعداد و شمار دیئے جا رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، پاکستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے، ادائیگیوں میں توازن میں نمایاں بہتری آئی ہے، موجودہ حکومت نے سپر ٹیکس ختم کیا ہے اور اقتصادی اصلاحات پیکج میں کاروباری شعبے کو بہت سہولیات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو ٹیکس وصولی میں اضافہ کرنا چاہیے، منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک کی رقوم بیرون ملک بھجوائی گئیں، منی لانڈرنگ کا جرم ناقابل ضمانت ہونا چاہیے، عوام کو رقوم کی منتقلی کے لئے قانونی ذرائع استعمال کرنا چاہیے، ہماری معاشی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ اقتصادی اصلاحات پیکج میں کاروباری شعبے اور صنعتوں کے لئے بہتر اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خام مال کی بجائے ملک سے تیار مصنوعات کو برآمد کرنا چاہیے اس سے ملک کو فائدہ ہو گا، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں کمی سے برآمدات نہیں بڑھیں گی، برآمدات بڑھانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔