استحکام سے بڑھوتری کی طرف جانا حکومت کا معاشی فلسفہ ہے،نچلی سطح سے اوپرکی طرف بڑھوتری کا سفرکریں گے، لائحہ عمل وضع کرلیا گیاہے،وزیرخزانہ شوکت ترین کی پریس کانفرنس

92

اسلام آباد۔5مئی (اے پی پی):وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات شوکت ترین نے کہاہے کہ استحکام سے بڑھوتری کی طرف جانا حکومت کا معاشی فلسفہ ہے اور اس کیلئے لائحہ عمل وضع کرلیا گیاہے، نچلی سطح سے اوپرکی طرف بڑھوتری کے اہداف حاصل کریں گے، ٹریکل ڈاؤن کا تصورناکام ثابت ہواہے، وزیراعظم اورحکومت مہنگائی کوکم کرنا چاہتے ہیں قیمتوں میں استحکام ہماری ترجیح ہے، خصوصی صنعتی زونزمیں آؤٹ سورس صنعتوں کے قیام کیلئے چین سے رابطہ کیاجائیگا،ہ سرکاری کاروباری اداروں کی منیجمنٹ کوحکومت سے نجی شعبہ کے ماہرین کی طرف منتقل کیاجائیگا،، پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہیں نکلا، آئی ایم ایف سے کہاہے کہ ٹیرف اورٹیکسوں کی شرح میں یکدم اضافہ کی گنجائش نہیں ۔

جمعرات کویہاں معاون خصوصی برائے محصولات ڈاکٹروقار مسعود اورسیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ موجودہ حکومت کوآغازمیں مشکل اقتصادی صورتحال کاسامنا تھا،زرمبادلہ کے ذخائرکم ہوگئے تھے،حسابات جاریہ کاخسارہ 20ار ب ڈالرسے تجاوزکرگیاتھا،حکومت نے دوست ممالک سے اقتصادی معاونت کیلئے رابطہ کیاتاہم جتنی معاونت کی امیدتھی اس کے مطابق معاونت حاصل نہیں ہوئی ایسے حالات میں جب آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ماحول ماضی کے نسبت میں مشکل تھا۔ 2008 میں جب ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو دہشت گردی کیخلاف جنگ کی وجہ سے دنیا ہماری ساتھ تھی اسلئے پاکستان پرزیادہ شرائط عائد نہیں کئے گئے۔

موجودہ حکومت جن حالات اورماحول میں آئی ایم ایف کے پاس گئی ہے اسے دوستانہ قرارنہیں دیا جاسکتا،آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے جو شرائط عائد کی گئی تھیں ان کاسیاسی نقصان ہوسکتاتھاتاہم حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق اقدامات کئے اورمعیشت استحکام کی جانب گامزن ہوگئی۔حسابات جاریہ کے خسارہ میں کمی آئی، برآمدات اورترسیلات زرمیں اضافہ ہونے لگا، بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں بڑھوتری ہوئی اس دوران کوویڈ 19 کی وبا آئی جس سے یہ اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔

کوویڈ 19 کے عرصہ میں بھی حکومت نے 1240 ارب روپے سے زائد کامالیاتی امدادی پیکج جاری کیا جس پرحکومت کوکریڈٹ ملنا چاہئیے، اس پیکج کے تحت انسانی زندگی اورکاروبارکے تحفظ کیلئے اقدامات کئے گئے، پیکج سے صورتحال کومستحکم کرنے میں مددملی اورمعیشت نے بڑھوتری کے اشارے دینا شروع کئے، بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں اضافہ ہورہاہے، کاٹن کے علاوہ دیگرفصلوں کی پیداوارمیں اضافہ ہورہاہے، سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں ریکارڈاضافہ دیکھنے میں آیاہے،محصولات اکھٹاکرنے کی شرح میں مارچ میں نیٹ بنیادوں پر40 فیصداضافہ ہوا جوپچھلے سال منفی چھ فیصدتھا، 20 اپریل تک ریونیومیں بڑھوتری کی شرح 92 فیصد تھی تاہم ایک بار کوویڈ کی لہرنے ملک کومتاثرکیا،اس وقت ہمیں جوخطرہ آرہاہے وہ کوویڈ سے ہیں بصورت دیگراقتصادی اشاریے بحالی کی عکاسی کررہے ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت کا معاشی فلسفہ یہ ہے کہ اب ہمیں استحکام سے بڑھوتری کی طرف جاناہے، اس کیلئے حکومت نے لائحہ عمل وضع کرلیاہے۔ حکومت سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے فنڈز میں اضافہ، زراعت اورتعمیرات کے شعبہ جات کو ترجیح دے رہی ہے اور ان شعبوں کیلئے مراعات دی جارہی ہے، اس سے ملک میں روزگارکے مواقع کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ حکومت محصولات کے شعبہ پرتوجہ دے گی، ہمیں امیدہے کہ کوویڈ19 کی حالیہ لہرمختصرثابت ہوگی اوراس لہرکے بعدبحالی کی ٹرین دوبارہ پٹری پرچڑھ جائیگی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ ہم منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھناچاہتے تھے،60 اور70 کی دہائیوں میں پاکستان 5 سال منصوبہ بندی کرتا چلا آرہاتھا، اس وقت اہم ایشیائی ممالک کے مقابلہ میں پاکستان کی معیشت بہترین تھی، جاپان، چین، بھارت سمیت اہم ایشیائی ممالک ہم سے پیچھے تھے، جنوبی کوریا نے پاکستان سے ترقیاتی ماڈل لیکرکامیابی حاصل کی۔

انہوں نے کہاکہ اسی سلسلہ کوآگے بڑھاتے ہوئے اقتصادی مشاورتی کونسل میں 12 ذیلی گروپس بنائے گئے ہیں تاکہ مختلف شعبوں میں مختصر،قلیل اورطویل المدت پالیسیوں پرکام کیا جاسکے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ وزیراعظم اورحکومت مہنگائی کوکم کرنا چاہتے ہیں قیمتوں میں استحکام ہماری ترجیح ہے، کھیت سے صارف تک اشیا کی قیمت میں فرق بہت زیادہ ہے، مڈل مین کوزیادہ یعنی 50 سے 60 فیصدمنافع جارہاہے، حکومت اس فرق کو کم کرنے کیلئے کام کرے گی۔حکومت سماجی تحفظ پربھی کام کررہی ہے، سماجی تحفظ کے حوالہ سے ڈاکٹرثانیہ نشترنے اچھا کام کیاہے، حکومت سماجی تحفظ میں صحت، تعلیم اوردیگرشعبوں کوبھی شامل کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ مالیاتی استحکام لانا بھی ہمارمطمع نظرہے، ہم نے اخراجات کے استعمال کوبہتربناناہے،این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کیلئے 59 فیصد سے زائد حصہ اسلئے دیا جاتا ہے تاکہ صوبے صحت، تعلیم اورترقی کے منصوبے شروع کرسکیں، حکومت محصولات میں اضافہ کرناچاہتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ایف بی آر نے اچھا کام کیاہے تاہم لوگوں کوہراساں کیا جارہاہے، اس کی وجہ سے لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آرہے۔ بجٹ میں ہراسمنٹ کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، بجلی کے شعبہ کوبہتربنانے پربھی کام ہورہاہے، اس وقت کیپسٹی ادائیگیوں کامعاملہ اہم ہے، اگرگروتھ کی شرح 7 فیصد سے زیادہ ہوں توادائیگیاں مسئلہ نہیں ہوتی۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کی 60 فیصد کی قریب آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جن کازراعت پرانحصارہے، زرعی شعبہ کا ملک میں روزگارکی فراہمی میں کلیدی کردارہے، حکومت زراعت، آبپاشی کیلئے پانی، بیجوں کی فراہمی، زرعی قرضوں میں اضافہ، اورزرعی مصنوعات کی مارکیٹنگ پرتوجہ دے گی۔انہوں نے کہاکہ ہماری صنعت میں مسابقت نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری درآمدات زیادہ ا وربرآمدات کم ہے، حکومت صنعتوں کومضبوط اورمستحکم بنائیگی، پاکستان میں برآمدات سے متعلق صنعتوں میں براہ راست راست بیرونی سرمایہ کاری صفر ہے، جن ممالک نے ترقی کی ہے انہوں نے برآمدات پرمبنی صنعتوں میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کیلئے اقدامات کئے، اس ضمن میں حکومت چین پاکستان اقتصادی راہداری کواستعمال میں لائیگی، خصوصی صنعتی زونزمیں آوٹ سورس صنعتوں کے قیام کیلئے چین سے رابطہ کیاجائیگا، اس سے 85 ملین روزگارکے مواقع پیداہونے کاامکان ہے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اہم صنعت ہے، اس میں 65 فیصد گروتھ ہورہی ہے جسے 100 فیصدسے زائد تک بڑھایاجاسکتاہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کاشعبہ پاکستان کیلئے گیم چینجرثابت ہوسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ ہاوسنگ شعبہ اہمیت کاحامل ہے،وزیراعظم نے اس شعبہ پرخصوصی توجہ دی ہے، پاکستان میں اس وقت مارگیج قرضوں کی شرح پوائنٹ 25 ہے جوبہت کم ہے، اس کے قرضوں پرسود کی شرح زیادہ تھی، حکومت نے اس شعبہ کی راہ میں حائل رکاٹوں کودورکیاہے اوریہ ملک کی معاشی بڑھوتری میں اہم کرداراداکرے گا۔

وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہاکہ سرکاری کاروباری اداروں کی کارگردگی کوبہتربنایاجائیگا، اب عملی اقدامات کا وقت ہے، ان اداروں کی منیجمنٹ کوحکومت سے بجی شعبہ کے ماہرین کی طرف منتقل کیاجائیگا، اب فیصلہ سازی حکومت نہیں بلکہ ان کے ماہرین پرمشتمل بورڈ ز کریں گے۔انہوں کہاکہ مالیاتی شعبہ اچھا جارہاہے تاہم بعض امورحل طلب ہے، پاکستان میں کھاتوں اورقرضوں کے درمیان شرح 48 فیصد ہے، 85 فیصد قرضے نو دس بڑے شہروں میں دئیے جارہے ہیں،خیبرپختونخوا، جنوبی پنجاب،بلوچستان اورآزادکشمیر میں قرضوں کی شرح کم ہے، اس صورتحال کوٹھیک کریں گے۔ جی ڈی پی میں بینکنگ شعبہ کے نقش پا33 فیصد ہے جوبہت کم ہے، اسے 50 سے لیکر60 فیصد تک لیجایا جائیگا۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ وہ انتہائی منظم طریقے آگے بڑھیں گے، زراعت اوربڑی صنعتوں کی ترقی ہماراہدف ہے، آج میری گورنرسٹیٹ بینک سے ملاقات ہوئی ہے، اس ملاقات میں ایس ایم ایز پربات چیت ہوئی، اس وقت ایس ایم ایز قرضوں کی کل تعداد1 لاکھ ہے جو بہت کم ہے، حکومت ایس ایم ایز کیلئے قرضوں میں اضافہ کرے گی اوران قرضوں کوپروگرام کی بنیادپرجاری کیا جائیگا۔ایس ایم ایز قرضوں کی کل تعدادکم سے کم 10 لاکھ ہونا چاہئیے۔حکومت ایس ایم ایز کیلئے قرضوں کے اصل زرمیں 50 فیصد خسارہ برداشت کرے گی،اسی طرح کامیاب جوان پروگرام کیلئے قرضوں کی شرح بہت کم ہے اسے بڑھائیں گے۔ کامیاب جوان کی طرح کامیاب کسان پروگرام شروع کریں گے،اس طریقے سے ہم نچلی سطح سے اوپرکی طرف بڑھوتری کے اہداف حاصل کریں گے، امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی کہاہے کہ ٹریکل ڈاون تصورناکام ثابت ہواہے۔

حکومت ہم نچلی سطح سے اوپرکی طرف بڑھوتری کے سفر کے زریعہ اقتصادی خوشحالی کی طرف جائیگی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کی حکومت اورآئی ایم ایف کے درمیان پروگرام جاری ہے، پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہیں نکلا ہے۔ تاہم ہم نے آئی ایم ایف سے بات کی ہے کہ ٹیرف اورٹیکسوں کی شرح میں یکدم اضافہ کی گنجائش نہیں ہے، عام آدمی ٹیکسوں سے تنگ آچکاہے، فیول چارجز میں اضافہ سے ہرچیزپرفرق پڑے گا، ہرچیزمہنگی ہوجائیگی۔

ہم اس پروگرام سے نکلیں گے نہیں تاہم ہمیں سپیس چاہئیے۔ انہوں نے کہاکہ ٹیکسوں کواختراعی طریقوں سے بڑھائیں گے، ٹیکسوں کی شرح میں آہستہ آہستہ اورگنجائش کے مطابق اضافہ کیاجائیگا، وزیرخزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام سے دنیا دیکھتی ہے کہ ملک استحکام کی طرف جارہاہے، میری اورمجھ سے پہلے حماداظہرکی آئی ایم ایف اورعالمی بینک کے حکام سے بات چیت ہوئی ہے، بات چیت میں ان کارویہ ہمدردانہ تھا، انہوں نے کہاکہ ریونیوبڑھانا ہے تاہم اس کیلئے ماردھاڑنہیں کریں گے، جنرل سیلز ٹیکس کومرکزی دھارے میں لایا جائیگا۔