اقوام متحدہ۔4اپریل (اے پی پی):اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے خبردار کیا ہے کہ سلامتی کونسل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بمباری، فاقہ کشی، نقل مکانی اور اجتماعی سزا کا شکار فلسطینیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے جو اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، انہوں نے سلامتی کونسل سے اس صورتحال کے ازالے کے لیے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔
پاکستانی مندوب نے فلسطین کی تازہ ترین صورتحال پر غور کے لئے بلائے گئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ فلسطین میں ہماری آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور سلامتی کونسل کو اس سب کو روکنے کے لئے لازماً اقدامات کرنے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس ادارے کا حصہ نہیں بن سکتے جو فلسطین کی موجودہ صورتحال پر محض تماشائی بنا رہے اور کچھ نہ کرے،ہم اس اخلاقی دیوالیہ پن اور انسانیت کے خاتمے کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہیں ۔سلامتی کونسل کا یہ ہنگامی اجلاس الجزائر نے پاکستان، چین، روس اور صومالیہ کی حمایت سے غزہ میں اجتماعی قبر سےامدادی کارکنوں کی 15 لاشوں کی دریافت پر بلایا تھا۔
عاصم افتخار احمد نے کہا کہ غزہ اور اس سے باہر جاری سنگین انسانی بحران سلامتی کونسل کی بے عملی کی عکاسی کرتا ہے جس سے ایک خطرناک مثال قائم ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل جس استثنا کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، جنگ بندی معاہدے، بین الاقوامی قانون، یواین چارٹر اور جنیوا کنونشنز سمیت تمام مہذب طرز عمل کی خلاف ورزی کر رہا ہے اس سے فلسطینی عوام کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا سلامتی کونسل کبھی ان پر ڈھا ئے جانے والے مظالم پر کوئی بامعنی قدم اٹھائے گی یا صرف افسوس کرنے تک محدود رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان مظالم پر اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے میں سلامتی کونسل کی ناکامی نہ صرف اس ادارے کو بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر پر بنائے گئے بین الاقوامی نظام کو بھی تباہ کررہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ لوگ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک عضو معطل تصور کر لیں اسے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر اپنی موجودگی کا ثبوت دینا چاہیے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ اس وقت جب ایک طرف غزہ جل رہا ہے تو دوسری طرف مغربی کنارہ اپنے ایک اور نکبہ کا مشاہدہ کر رہا ہے جہاں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوری سے اب تک 99 فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور اسرائیل مقبوضہ علاقے کو مستقل طور پر اپنی نوآبادی بنانے اور اس کو اپنے ساتھ ضم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کے اسرائیل کے منصوبے بھی اسی طرح کے ہیں جن میں ایک نام نہاد سکیورٹی کوریڈور کا قیام بھی شامل ہے ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح تنازعہ خطرناک حد تک پھیل سکتا ہے اور مذکورہ اسرائیلی اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوں گے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ ہم اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے تقدس کی جان بوجھ کر پامالی کی بھی مذمت کرتے ہیں ، یہ اسرائیلی اقدام اشتعال انگیز اور بین الاقوامی قانون کے تحت مذہبی آزادی کے تحفظات کی واضح خلاف ورزی ہے۔ عاصم افتخار احمد نے کہا کہ غزہ میں نہتے شہریوں بشمول بچوں ، خواتین، امدادی کارکنوں ، اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں اور سکولوں جیسے شہری انفراسٹرکچر پر اندھا دھند حملے کئے جا رہے ہیں، کوئی بھی مقام یہاں تک کہ تاریخی ثقافتی مقامات کو بھی ان اسرائیلی حملوں سے استثنا حاصل نہیں ، یہ مکمل تباہی اورایک ایسی صورتحال کی عکاسی ہے جہاں انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو استثنا کے ساتھ نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے 1,100 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا ، اسرائیلی فوج نے اکتوبر 2023 سے جنوری 2025 کے درمیان 50,000 سے زیادہ فلسطینی جن میں 17,000 بچے بھی شامل ہیں کو قتل کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لئے یہ صرف جنگ نہیں بلکہ یہ منظم انداز میں فلسطینیوں کی تباہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ایک ماہ سے اسرائیل نے تمام سرحدی گزرگاہوں کو سیل کر دیا ہے، غزہ جانے والی انسانی امداد کو بند کر دیا گیا اور وہاں خوراک یا طبی سامان کے داخلے کی اجازت نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیسیف کے مطابق 10 لاکھ بچے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، جب کہ ڈبلیو ایف پی نے غزہ میں قحط کی وارننگ جاری کی ہے، بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرم ہے ۔
پاکستانی مندوب نے 23 مارچ کو 15 امدادی کارکنوں کے قتل سمیت امدادی قافلوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کی مدد کرنے والی اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے (انروا)کے 284 اہلکاروں سمیت 400 سے زیادہ انسانی ہمدردی کے کارکن مارے جا چکے ہیں جو کہ جدید انسانی تاریخ میں مارے جانے والے امدادی کارکنوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اقوام متحدہ کے عملے اور انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والے امدادی کارکنوں کو کسی سزا اور جواب طلبی سے استثنا کے ساتھ گولی مار دی جاتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کی راکھ سے ہم نے جو عالمی نظم قائم کیا تھا اس کا کیا باقی بچا ہے ۔
انہوں نے پاکستان کی طرف سے مطالبہ کیا کہ فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روک کر 19 جنوری کی جنگ بندی کا مکمل نفاذ اور اسے مغربی کنارے تک توسیع دی جائے، غیر محدود انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل کی غیر قانونی ناکہ بندی کو ختم کیا جائے،اقوام متحدہ کے عملے اور امدادی کارکنوں کی حفاظت، عالمی ادارے کے زیرقیادت ڈیش بورڈ کی خلاف ورزیوں کا سراغ لگائیں اور جوابدہی کو یقینی بنایا جائے ،فلسطینیوں کی جبری بے دخلی یا ان کی سرزمین کے الحاق کو روکا جائے اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف اس کے دارالحکومت کے ساتھ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کی طرف ایک قابل اعتماد امن عمل کو بحال کیا جائے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطین کے حوالے سے عالمی برادری کی امنگوں کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کریں کیونکہ بہر حال خطے میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی طرف پیش رفت سب کے مفاد میں ہے ۔قبل ازیں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے سلامتی کونسل کو ایک بڑھتے ہوئے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے،غزہ پر مسلط کردہ ناکہ بندی اور محاصرہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے اور جنگ کے طریقہ کار کے طور پر بھوک کو استعمال کرنے کے مترادف بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یکم اپریل تک ورلڈ فوڈ پروگرام نے غزہ میں اپنی 25 بیکریاں بند کر دی ہیں جس کی وجہ سے وہاں بہت سے لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ مغربی کنارے کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے یہ اسرائیلی اعلان کہ وہاں کے رہائشیوں کو ایک سال تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جانا چاہیے طویل مدتی بڑے پیمانے پر نقل مکانی بارے سنگین خدشات کا باعث ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے ہولناک حملوں کی طرح فلسطینی عوام کی اجتماعی سزا کا بھی کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا۔فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے صدر یونس الخطیب نے کہا کہ اس جنگ میں بہت سے خوفناک ریکارڈ ٹوٹ چکے، غزہ کی جنگ میں کسی بھی جنگ کے مقابلے میں سب سے زیادہ امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک اجتماعی قبر میں فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے 8پیرامیڈیکس، شہری دفاع کے 6 ارکان اور اقوام متحدہ کے ایک افسر کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے ایک رکن اسد النصرہ نے اطلاع دی تھی کہ ان کی ٹیم پر فائرنگ کی جا رہی تھی اور کئی ساتھی زخمی ہوئے ، اس اطلاع کے بعد وہ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ا ن کا کہنا تھا کہ ہم سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جنگ بندی کی بحالی کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=578370