اقوام متحدہ ۔29مئی (اے پی پی):پا کستانی نژاد امریکی سرجن ڈاکٹر فیروز سدھوا کی اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں بچوں کے سروں میں گولی مارنے اور حاملہ خواتین کے ٹکڑے کردینے کے انکشافات نے اقوام متحدہ کو سکتے میں ڈال کر رکھ دیا۔ پاکستانی نژاد امریکی ٹراما سرجن ڈاکٹر فیروز سدھوا جنہوں نے اس سال کے شروع میں غزہ کی پٹی کے یورپی ہسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں، انہوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران غزہ کی صورتحال کو آگ اور موت کی بارش سے تعبیر کیا۔
ڈاکٹر فیروز سدھوا نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے واقعات کے دوران، ہم نے اپنے اردگرد ہر جگہ گرنے والی آگ اور موت کی بارش کو دیکھا ہے اور خاص طور پر 18 مارچ کو اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے دوران ان ہولناکیوں ناقابل بیان ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ 18 مارچ کو انہوں نے اپنے کیریئر کا سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا واقعہ دیکھا جس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس میں221 ٹراما کے مریض آئے جن میں 90مریض ہسپتال پہنچتے ہی جاں بحق ہو چکے تھے اورنصف شدید زخمی بچے تھے۔ انہوں نے کہاکہ غزہ میں ہسپتال پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ وہاں اب صحت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے اور یہ ہی اب غزہ میں لوگوں کے لئے کوتحفظ کی جگہ باقی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وہ ذاتی طور پر ایسے 13 بچوں کا علاج کر رہے تھے جن کے سروں پر گولیاں ماری گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان بچوں نے اپنے مرحوم والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ مرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس کا ان کے لئے سننا کسی تکلیف سے کم نہیں ہے ۔ فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر فیروز سدھوانے کونسل پر زور دیا کہ وہ فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرے، ہتھیاروں کی منتقلی کو روکے، طبی انخلاء کی ضمانت دے اور انسانی بنیادوں پر پائیدار رسائی کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہاکہ اگر اب بھی یہ کونسل خاموش اورفوری اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو یہ رویہ فوری دیکھ بھال فراہم کرنے میں عالمی ناکامی اور ہمارے اجتماعی ضمیر کے خاتمے کا ثبوت بنے گا۔ انہوں نے کہاکہ میں نے غزہ میں اپنے پانچ ہفتوں کے دوران ایک بھی جنگجو کو نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کا علاج کیا بلکہ میرے مریض 6 سال کی عمر کے تھے جن کے دل اور دماغوں میں گولیاں پیوست تھیں، وہ حاملہ خواتین تھیں جن کے دو ٹکڑے کر کیے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں نے جو دیکھا میں اس کو جھٹلا نہیں سکتا نہ ہی فراموش کرسکتا ہوں ۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ طبی نظام ناکام نہیں ہوا ہے بلکہ اسے ایک مستقل اسرائیلی فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے جس میں جان بوجھ کر بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں نسل کشی کو روکنے کا مطلب ہے کہ ان مظالم کو معمول پر لانے سے انکار کیا جائے۔
انہوں نے کونسل اراکین کو بتایاکہ وار چائلڈ الائنس کی رپورٹ ہے کہ غزہ کے تقریباً نصف بچے خودکشی کر رہے ہیں،اس نے اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ امریکا پر زور دیا کہ فوری جنگ بندی اور تمام ہتھیاروں کی منتقلی کو روکنے کا مطالبہ کریں۔ ڈاکٹر سدھوا نے اپنے دو طبی مشنوں سے خان یونس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غزہ کے زوال پذیر صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے بارے میں کہا کہ میں یہاں ایک پالیسی ساز کے طور پر نہیں ہوں، بلکہ ایک ڈاکٹر کے طور پر ہوں جس نے صحت کی دیکھ بھال کی تباہی دیکھی ہے جس میں میرے ساتھیوں کو نشانہ بنا یا گیا جس کا میں گواہ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں مریضوں کی بے ہوشی کے بغیر گندے فرشوں پر سرجری کی جارہی ہے اور اسرائیل کی طرف سے طبی سامان کی ناکہ بندی کی وجہ سے بچے قابل علاج وجوہات سے مر رہے ہیں۔
انہوں نے جنگ کے نفسیاتی نقصانات کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے تقریباً نصف بچے اب خودکشی کر رہے ہیں، یہ پوچھ رہے ہیں کہ میں اپنے خاندان کے ساتھ کیوں نہیں مر گیا۔ ڈاکٹرفیروز سدھوا نے کونسل سے سات اقدامات کو نافذ کرنے کی درخواست کی جس میں ہتھیاروں کی پابندی بھی شامل ہے، اور ان کی بے عملی کو منحرف ضمیر کا ثبوت قرار دیا کیونکہ غزہ کے آخری ڈاکٹروں اور فلسطینیوں کی ایک نسل کو تباہی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ آپ جہالت کا دعویٰ نہیں کر سکتےجب غزہ کے بچے مزید زندہ نہیں رہنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمیں اب ان کے مظالم کو معمول پر لانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون اور انسانی وقار کی توہین ہوگی۔41 واضح سالہ ڈاکٹرفیروز سدھوا 1982 میں ہجرت کرنے والے پاکستانی والدین کے ہاں امریکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مشہور پاکستانی ناول نگار بپسی سدھوا کے چھوٹے بھائی ہیں۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=602701