اسلامو فوبیا نے بھارت میں”انتہائی مہلک اور خطرناک شکل”اختیار کر لی ہے ، بھارت میں 25کروڑ مسلمان مظلوم اقلیت میں تبدیل کر دئیے گئے ہیں ، امریکی سکالرنوم چومسکی کاویبنار میں وڈیو پیغام

109

واشنگٹن۔11فروری (اے پی پی):امریکا کے معروف سکالر، فلاسفر، مصنف، سماجی ناقد، سیاسی کارکن نوم چومسکی نے کہا ہے کہ اسلامو فوبیا نے بھارت میں ایک "انتہائی مہلک اور خطرناک شکل” اختیار کر لی ہے جہاں مسلمانوں کوسب سے زیادہ مظالم اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس نے تقریباً25کروڑ بھارتی مسلمانوں کو مظلوم اقلیت میں تبدیل کر دیا ہے۔

انہوں نے گزشتہ روز امریکا میں بھارتی امریکی مسلمانوں کی وکالت کرنے والی تنظیم انڈین امریکن مسلم کونسل (آئی اے ایم سی) کی جانب سے’’بھارت میں بدترین نفرت انگیز تقریر اور تشدد ‘‘کے موضوع پر منعقدہ ویبنار میں اپنے وڈیو پیغام میں کہا کہ اسلامو فوبیا کے رجحان میں جہاں پورے مغرب میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں یہ بھارت میں اپنی سب سے مہلک شکل اختیار کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دائیں بازو کی ہندو نیشنلسٹ حکومت نے جموں و کشمیر میں جرائم میں تیزی سےاضافہ کیاہے۔

کشمیر میں ہونے والے جرائم کی ایک طویل تاریخ ہے اور جموں و کشمیر کی ریاست اب ایک "وحشیانہ طور پر مقبوضہ علاقہ ہے اور اس کا فوجی کنٹرول کچھ طریقوں سے مقبوضہ فلسطین سےملتا جلتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی صورتحال اس حوالے سے دردناک ہے کہ وہاں ا نسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور تشدد کوفروغ دیا جارہا ہےتاہم جنوبی ایشیا کی مصائب و مشکلات کو فوری حل کرنے کی امید اور مواقع موجود ہیں جن سے فوری طور پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

اس موقع پر بھارتی مصنف اناپرنا مینن نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت میں آزادی صحافت کی صورتحال تشویش کا باعث ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں صحافیوں خاص طور پر خواتین صحافیوں کو ہراساں، غیر قانونی طور پر گرفتار ، پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بانیا جاتا ہے اور انہیں بغاوت کے الزاما ت کا سامنا ہے اور 2022 میں اب تک 4صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جبکہ جموں و کشمیر میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے جہاں بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی حالیہ میڈیا پالیسی کے تحت صحافیوں کو روزانہ پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ کا سامنا رہتاہے، رپورٹنگ پر پابندی ، انٹرنیٹ سروسز کی معطلی اور مالی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس کی جانب سے نہ صرف صحافت کے خلاف کریک ڈائون میں اضافہ ہوا ہے بلکہ سرینگر کے فوٹوجرنلسٹ مسرت زہرا کے خاندان کو ہراساں کیا اور دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری صحافی فہد شاہ جو کشمیری میگزین دا کشمیر والا کے بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں کو بھارتی پولیس کی جانب سے حال ہی میں پلوامہ میں دہشت گردی اور بغاوت کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ،اسی طرح رواں ماہ کے آغاز میں کشمیری صحافی سجاد گل کو بھی گرفتار کیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ایڈووکیسی ڈائریکٹرجان سفٹون نے کہا کہ بھارتی حکومت کی طرف سےہندو مذہب کی تشہیر کے لیے اقلیتوں کو بنانا بھارتی آئین کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بی جے پی کی حکومت اور اس سے وابستہ کارکن انتخابات میں ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی بیانات دے رہے ہیں جبکہ بھارتی حکومت نے اقلیتوں خاص طور پر بھارتی مسلمانوں کو منظم طور پر نشانہ بنانے کے لیے سٹیزن شپ ایکٹ کا نفاذ کیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، یوٹیوب اور ٹک ٹاک بھی اپنے پلیٹ فارمزپر نفرت کے پھیلائو کو روکنے میں ناکام ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس بھارت میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق بھارتی حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کرے اور انسانی حقوق کے احترام کے لیے بھارتی حکومت پر دبائو ڈالے۔ بھارت کے سابق سرکاری ملازم اور انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندیر نے کہا کہ مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کے اصولوں کو برقرار رکھا جبکہ اس کے برعکس اس وقت بھارتی رہنما ہندو بالادستی کے نظریے کو فروغ دے رہے ہیں ۔

بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کے دور اقتدار میں نفرت پر مبنی جرائم میں ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔بی جے پی اقلیتوں کے خلاف جرائم کے حوالہ سے بدنام ہے یہاں تک کہ مدر ٹریسا کی بھی توہینکی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کومتعصب، غیر محب وطن، جہادی اور ظالم کے طور پرغلط پیش کیا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم مودی بھی نفرت پھیلانے والوں کی پیروی کرتے ہیں اور وہ ان کی مذمت کرنے سے انکار کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی اکثریت والا علاقہ ہے۔