اسلام آباد۔17مئی (اے پی پی):اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں سے آئندہ سماعت جواب طلب کرلیا۔منگل کو پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عوامی مسلم لیگ، جماعت اسلامی کے نمائندے عدالت کے روبرو پیش ہوئے، شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں پٹیشن میں کچھ اضافہ کی استدعا ہے۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریری رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیاکہ یہ بتائیں کیس آٹھ سال سے کیوں زیر التوا ہے؟،یہ تو ہر سال کا پراسس ہے اسی سال ہی ہونا چاہیے یہ آٹھ سال سے کیوں چل رہا ہے،کیا قانون کے مطابق ہر سال ہر سیاسی جماعت اپنے آڈٹ اکاؤنٹ جمع کراتی ہے؟،کیا الیکشن کمیشن ہر سال سکروٹنی کرتا ہے ؟،الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر لاء نے بتایاکہ ہم قابل اعتراض اکاؤنٹس کی سکروٹنی کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت جلسہ کرے تو اس کے اخراجات کی تفصیل بھی اس نے دینی ہوتی ہے،لگتا ہے الیکشن کمیشن ہر سال کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی آڈٹ اکاؤنٹ کی سکروٹنی نہیں کر رہا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ اگر عدالت کہے تو ہم اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرا دیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ پہلی بات تو یہ ہے یہ کیس آٹھ سال چلنا نہیں چاہیے،اگر کسی سیاسی جماعت کے اکاؤنٹس قابل اعتراض تھے تو صرف ان سے جواب مانگ لیتے،اگر کوئی قابل اعتراض اکاؤنٹس تھے تو سیاسی جماعت کو نوٹس کرتے ثابت ہوجاتا تو ان اکاؤنٹس کو آپ بحق سرکار ضبط کر لیتے،یہ بہت حساس معاملہ ہے اس طرح تو پھر کوئی پارٹی نہیں بچے گی،ایک پارٹی دوسری کے خلاف دوسری اور کے خلاف اس طرح کی پروسیڈنگز چلتی رہیں گی، وکیل نے کہاکہ سکروٹنی کمیٹی نے ریکارڈ تک اکبر ایس بابر کو رسائی نہیں دی تھی کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا،شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہاکہ اب یہ پراسس شروع ہو گا کہ الیکشن کمیشن اگر سمجھتا ہے کسی اکاؤنٹ میں کچھ مسئلہ ہے تو پارٹی کو شوکاز کرے گا۔
ایک اکبر ایس بابر کا کیس ہے دوسرا فرخ حبیب نے کیا ہوا ہے ، سکروٹنی کمیٹی دو کیسز میں بنی ہے ایک پی ٹی آئی کے خلاف دوسری ہماری دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے سکروٹنی کمیٹی مخصوص کیسز میں ہی بنتی ہے،اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہاکہ کچھ دنوں کی بات ہے یہ معاملہ مکمل ہو جائے گا آج بھی ہم الیکشن کمیشن کے سامنے تھے،شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہماری طرف سے اس کیس میں تاخیر نہیں ہے ہمارے وکیل انور منصور الیکشن کمیشن میں موجود تھے،الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ اکبر ایس بابر کی شکایت 2014ء میں آئی تھی دوسری کمپلینٹ 2018 تیسری 2020 میں آئی تھی، ان کاکیس پرانا ہے ہم کسی سیاسی جماعت کے ساتھ جانبداری نہیں دیکھا رہے،یہ کہتے ہیں 2014 کا کیس 2020 کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ جو میں سمجھا ہوں ان کا اعتراض یہ ہے کہ اگر ان کی پٹیشن پر پہلے فیصلہ ہو تو ان کو سیاسی اثرات ہوں گے،یہ کہتے ہیں کہ اگر ساری سیاسی جماعتوں کے کیس کا ایک ہی وقت میں فیصلہ آئے تو اس اثرات بھی یکجا ہوں گے،عدالت نے کہاکہ سکروٹنی کمیٹی نے بتایا ہے کہ اکبر ایس بابر کی دی گئی معلومات قابل تصدیق نہیں ہیں ، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آچکی ہے یہ پی ٹی آئی کا کیس اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ میری رائے یہ ہے جو کیس اختتام کے قریب ہے اس کا فیصلہ کرتے ہیں اور باقی کیسز کو تیز کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہاکہ ہم نے الیکشن کمیشن کو پروسیڈنگز سے نہیں روکا، 2014 کا کیس پہلے کرنا ہے 2018 کا بعد میں کرنا ہے الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں اس پر جواب جمع کرائیں،سیاسی جماعتوں کے معاملے میں یکساں مواقع فراہم کئے جانے چاہیے یہاں حقیقت اس سے برعکس ہے،کسی سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگز سے شکایت نہیں ہونی چاہیے،سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا کر دار ہے عدالت یقینی بنائے گی کہ کسی کو کوئی شکایت نہ ہو، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت 30 مئی تک کیلئے ملتوی کردی۔