کراچی۔21ستمبر (اے پی پی):وزیر اعظم کے خصوصی نمائندہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور مشرق وسطی حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہاہے کہ اسلام میں جبری شادی یاتبدیلی مذہب کا کوئی تصور نہیں ہے، اسلام امن کا مذہب ہے اور اس نے خواتین کو باعزت مقام عطا کیا ہے۔ان خیالات کا اظہار بدھ کے روز انہوں نے یو این ویمن کی جانب سے یو این ایف پی اے اور یوکے ایڈ کے تعاون سے منعقدہ علما کے ساتھ قومی مذاکرہ سے خطا ب کرتے ہوئے کیاجس میں کم عمری کی شادی خواتین کی صحت پر منفی اثرات اورموثر آگاہی کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھنے کے راستہ پرغور کیاجارہاہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز اور کونسل کے دیگر اراکین، یو این ویمن، یو این ایف پی اے، یو کے ایڈ کے نمائندے اور بین الاقوامی اور قومی تنظیموں اور ماہرین صحت نے مکالمے میں شرکت کی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حافظ طاہر اشرفی نے کم عمری کی شادیوں کو ایک اہم سماجی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچیوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ ایک صحت مند ماں ہی صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کم سنی میں زبردستی کی شادیوں کو اسلام سے جوڑنا سراسر غلط اور بے بنیاد تصور ہے کیونکہ اسلام امن کا مذہب ہے اور اس نے خواتین کو باعزت مقام عطا کیا ہے۔
حافظ اشرفی نے احادیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ازدواجی بندھن میں داخل ہونے کے لیے عاقل اور بالغ ہونا شرط ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے شادی سے قبل بی بی فاطمہ کی رضامندی لی تھی اور پوری امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے ایک لازوال مثال قائم کی تھی۔انہوں نے کہا کہ شادی کے بعدلڑکی کوتین گھر سنبھالنے پڑتے ہیں- شوہر، سسرال اور والدین اور یہ بہت بڑا کام ذہنی پختگی اور عقل کے بغیر ممکن نہیں ،انہوں نے والدین پر زور دیا کہ اپنی بچیوںکا بہترین خیال رکھنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ لڑکیوں کی صحت، انہیں مستقبل کی زندگی کے لیے اچھی تعلیم و تربیت دیں ۔
حافظ طاہر اشرفی نے بھی اس معاملے پر واضح اور جامع انداز اپنانے پر اسلامی نظریاتی کونسل کی کاویشوں کو سہراتے ہوئے کہا کہ صحت کے ماہرین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر بچپن کی شادیوں سے پیدا ہونے والے مسائل اور حقائق کا جائزہ لینا چاہیے۔ خواتین کے صحت کے مسائل کو دور کرنے کے لیے سب کو آگے آنا چاہیے۔انہوں نے تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی زور دیا کہ وہ اس مقصد کے لیے فعال کردار ادا کریں اور بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کریں اور مذہبی اسکالرز کو کم عمری کی شادیوں کے مضر اثرات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے شامل کریں۔وزیر اعظم کے خصوصی نمائندے نے ملک بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بعد پیدا ہونے والے چیلنجز اور بیماریوں سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات پر بھی زور دیا اور حکومت اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی کہ وہ سیلاب متاثرین بالخصوص بچوں اور خواتین کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کم عمری کی شادیاں خاص طور پر خواتین کے لیے طبی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا باعث بن رہی ہیں اور یہ دنیا بھر میں موضوع بحث بن چکا ہے۔کونسل نے کم عمری کی شادیوں کے معاملے پر ایک جامع تحقیق کی ہے اور تفصیلی اعداد و شمار اور حوالہ جاتی مواد اکٹھا کیا ہے اور اس پر گہرائی سے غور و خوض کیا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ممتاز مسلم اسکالر علامہ محمد شفیع عثمانی نے اپنے فتوی میں کہا تھا کہ کم سنی کی شادی میں کئی مفاسدہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی آئی آئی نے عوام کو آگاہی فراہم کرنے، تمام متعلقہ اداروں کی شمولیت، نصاب میں معلوماتی مواد کو شامل کرنے اور بچوں کی شادیوں کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کی سفارش کی ہے تاکہ اس مسئلے کو بتدریج حل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی آئی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ کے خواتین سے متعلق اداراہ یو این ویمن کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔اس موقع پر یو این ویمن کی پاکستان میں کنٹری نمائندہ شرمیلا رسول اور یو این ایف پی اے کے کنٹری نمائندہ ڈاکٹر بختیار قادروف نے بھی خطاب کیا۔