کراچی۔12اگست (اے پی پی):اسٹیٹ بینک نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر ششماہی رپورٹ مالی سال 22 جاری کردی۔ مرکزی بینک سے جمعہ کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پاکستان کی معاشی بحالی مالی سال 22 کی پہلی ششماہی میں جاری رہی۔مالی سال 22 کی پہلی ششماہی کے تناظر میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم)میں وسیع البنیاد اضافہ دیکھا گیا، برآمدات میں تیزی کا رجحان رہا، ایف بی آر ٹیکسوں میں نمو ہوئی اور خریف کی فصلوں میں بلند پیداوار ریکارڈ کی گئی۔ تاہم جوں جوں سال گزرا کئی سال کی بلند ترین اجناس کی عالمی قیمتوں کے باعث بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جاری کھاتے کا خسارہ چیلنج بن کر سامنا آیا۔
رپورٹ کے مطابق اس دبائو کی وجہ سے طلب کو اعتدال پر لانے کے لیے دیگر ضوابطی اقدامات کے علاوہ زری سختی ضروری ہوگئی۔ جولائی تا دسمبر مالی سال 22 کے اعدادوشمار کے مطابق تیار کردہ تجزیے کے مطابق رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کووڈ کے حوالے سے بہتر حالات کے ساتھ حکومت کی ویکسی نیشن کی بھرپور مہم نے بڑی حد تک بلاتعطل معاشی سرگرمیوں کے لیے راہ ہموار کردی۔ اس کے علاوہ مالیاتی اقدامات بشمول بعض شعبوں پر ٹیکس کٹوتیوں اور وفاقی و صوبائی ترقیاتی اخراجات میں توسیع کے ہمراہ بلند غیرسودی جاریہ اخراجات نے معاشی نمو کو سہارا دیا۔
مالی سال 21 کے سازگار زری حالات کے موخر اثرات کے ساتھ اسٹیٹ بینک کی رعایتی اسکیموں اور مالی سال 22 کے آغاز میں ایک گنجائشی (accommodative)پالیسی ماحول نے بھی معاشی سرگرمیوں اور استعداد میں توسیع کے لیے سہولت پیدا کی۔ چنانچہ مالی سال 22 کی پہلی ششماہی میں ایل ایس ایم میں وسیع البنیاد اضافہ ہوا جس میں 22میں سے16ایل ایس ایم شعبوں میں پیداواری نمو ریکارڈ کی گئی۔ تاہم مالی سال 22 کی پہلی سہ ماہی میں 9.7فیصد کے اضافے کا اثر دوسری سہ ماہی کی قدرے معتدل 5.5فیصد نمو کی وجہ سے زائل ہوگیا۔
شعبہ زراعت میں خریف کی اچھی پیداوار کا سبب چاول اور گنے کی فصلوں کی ریکارڈ فصلیں تھیں۔ کپاس کی پیداوار بھی سازگار موسمی حالات کے باعث پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھی۔مالی سال 22 کی پہلی ششماہی میں نجی شعبے کا قرضہ سال بسال بنیاد پر تقریبا چار گنا بڑھ گیا۔ اس میں بنیادی کردار جاری سرمائے کی ضروریات کا تھا جن میں اضافی ملکی طلب اور بلند برآمدی اخراجات کے علاوہ اجناس کی عالمی قیمتیں بڑھنے کے نتیجے میں ملکی تھوک قیمتوں میں اچانک اضافے سے زیرِ جائزہ عرصے کے دوران اضافہ ہو گیا۔
معاشی سرگرمیوں میں توسیع کی عکاسی معینہ سرمایہ کاری قرضوں اور صارفی قرضوں کی طلب سے بھی ہوتی ہے، اگرچہ کہ دوسری سہ ماہی میں پالیسی اقدامات کی بنا پر موخرالذکر میں اعتدال آ گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اجناس کی روز افزوں عالمی قیمتوں کے علاوہ بڑھتی ہوئی ملکی طلب، خاص طور پر وہ طلب جو صنعتی خام مال کے لیے تھی، کے نتیجے میں کرنٹ اکائونٹ کے خسارے میں اضافہ ہوا حالانکہ کارکنوں کی ترسیلات مالی سال 22 کی پہلی ششماہی کے دوران دو ہندسی نمو سے 15.8 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھیں۔
پہلی ششماہی میں برآمدات خاصی بڑھ گئیں گو کہ دوسری سہ ماہی میں کچھ کمی آئی۔ برآمدی نمو میں دونوں عوامل یعنی بلند اکائی قیمتوں اور برآمدی حجم نے اپنا کردار ادا کیا جس سے زیرِ جائزہ عرصے کے دوران 3.4 ارب ڈالر کے سال بسال اضافے سے برآمدات 15.2ارب ڈالر تک جا پہنچیں، جو کسی ششماہی کی اب تک کی بلند ترین برآمدات ہیں۔تاہم دوسری سہ ماہی کے دوران درآمدی رفتار میں معمولی سی سست روی کے باوجود مالی سال 22 کی پہلی ششماہی کے دوران درآمدات میں اضافہ برآمدات میں اضافے کا تقریبا چار گنا زائد تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس میں غالب کردار اگرچہ اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا ہے تاہم درآمدی نمو کی ایک اہم وجہ خام مال اور سرمایہ جاتی اشیا کی بڑھی ہوئی طلب، اور کووڈ 19کی ویکسین بھی ہے، نیز ملکی رسد کے فرق کو پورا کرنے کے لیے گندم اور شکر کی مسلسل درآمدی ضرورت بھی اہم سبب ہے۔
مالی سال 22 کی پہلی ششماہی میں جاری کھاتے کیبڑھتے ہوئے خسارے کے دوران بین البینک منڈی میں مارکیٹ کی متعین کردہ شرح مبادلہ میں 10.7فیصد کمی واقع ہوئی۔ تاہم، مالی سال 22 کی پہلی ششماہی کے اختتام تک یورو بانڈ کے اجراسے ایک ارب ڈالر کی آمد، پہلی سہ ماہی میں آئی ایم ایف کی جانب سے 2.8ارب ڈالر کے اضافی ایس ڈی آر کے مختص کیے جانے اور دوسری سہ ماہی کے دوران سعودی عرب کی جانب سے 3ارب ڈالر کے دو طرفہ ڈپازٹس کے باعث اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر نسبتا مستحکم رہے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مالی سال 22 کی پہلی ششماہی کے دوران مہنگی تر درآمدی اجناس (جیسے خوردنی تیل اور دالوں)اور طلب کے لحاظ سے کچھ دبائو کے باعث قومی سی پی آئی مہنگائی بڑھ کر دو ہندسی ہوگئی، کیونکہ غیر تلف پذیر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے نے تلف پذیر اشیا کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کے اثر کو زائل کردیا۔ عالمی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پٹرول، ایل پی جی اور بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔مالی سال 22 کی پہلی ششماہی کے دوران معیشت کی مضبوطی، وسیع البنیاد مہنگائی کے دبا ئو اور جاری کھاتے کے بڑھتے ہوئے خسارے کی وجہ سے پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر275بیس پوائنٹس کا اضافہ ناگزیر تھا۔
اس کا مقصد اقتصادی ترقی اور بیرونی کھاتے دونوں میں پائیداری کو یقینی بنانے کے ساتھ مہنگائی کی توقعات کو مستحکم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ طلب کے دبائو کو کم کرنے کے لیے مطلوبہ نقد محفوظ (CRR)میں اضافہ اور محتاطیہ ضوابط(پروڈنشل ریگولیشنز)کو سخت کرنے جیسے اضافی اقدامات کیے گئے۔مالیاتی زمرے میں م س22 کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی خسارہ گذشتہ برس کی سطح، یعنی جی ڈی پی کا2.1 فیصد پر برقرار رہا۔ تاہم م س22 کی پہلی ششماہی میں بنیادی توازن کم ہوکر جی ڈی پی کا 0.1فیصد رہ گیا، جو گذشتہ برس کے اسی عرصے میں 0.6 فیصد تھا، کیونکہ غیرسودی اخراجات میں اضافے نے ٹیکس محاصل کے زبردست اضافے کو زائل کردیا۔
مالی سال22 کی پہلی ششماہی میں غیرسودی اخراجات تیزی سے بحال ہوئے جس کی وجہ سماجی تحفظ اور زرِ اعانت کے مصارف میں اضافہ ہے، جبکہ وفاقی سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں تقریبا 20فیصد اضافہ ہوا، دوسری سہ ماہی میں مالیاتی خسارہ قابو کرنے کے لیے اس میں بھی کمی آگئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محاصل کے اعتبار سے م س22 کی پہلی ششماہی میں ایف بی آر ٹیکسوں میں 32فیصد اضافہ ہوا، باوجود اس کے کہ دوسری سہ ماہی میں شرح نمو قدرے سست روی کا شکار رہی۔
تاہم، اس اضافے میں 79 فیصد حصہ درآمدات سے متعلق ٹیکسوں کا ہے، جس کی وجہ اجناس کی عالمی قیمتوں اور روپے کی قدر میں تخفیف کے باعث درآمدی حجم میں وسیع البنیاد اضافہ ہونا ہے۔ رپورٹ کے اندر پاکستان میں ٹریڈ آرگنائزیشنز کے موضوع پر خصوصی سیکشن شامل کیا گیا ہے، جس کا عنوان ”معاشی نمو اور ترقی میں ٹریڈ آرگنائزیشنز کا کردار” پاکستان میں حرکیات کی تفہیم ، اس خصوصی سیکشن میں اقتصادی اصلاحات کی منصوبہ بندی اور نفاذ میں سرکاری و نجی سطح پر تبادل خیال کی اہمیت پر خصوصی روشنی ڈالی گئی ہے، کیونکہ دنیا بھر میں حکومتی منصوبہ بندی اب شرکتی اور مارکیٹ پر مبنی نوعیت اختیار کرچکی ہے۔
اس خصوصی سیکشن میں مقامی ٹریڈ آرگنائزیشنز پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے، ٹریڈ آرگنائزیشنز کی جانب سے پالیسی کے بارے میں شواہد پر مبنی دلائل کی اہمیت، کاروباری اصلاحاتی اقدام کے لازم جز کے طور پر، اپنے ارکان کو مارکیٹ سے ہم آہنگ خدمات کی فراہمی کی ضرورت اور ٹریڈ آرگنائزیشنز کو مالی طور پر مستحکم کرنے کے لیے محاصل کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔
اس سیکشن میں کچھ خامیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی ٹریڈ آرگنائزیشنز کاروباری ماحول میں بہتری کے مقررہ ہدف کو پورا کرسکیں اور ملک کی معاشی نمو اور ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔