اشرف غنی کی عوام سے معافی کی درخواست ،کا بل چھوڑنے کا فیصلہ زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا لیکن اسی طرح ہی بندوقوں کے منہ بند کیے جا سکتے تھے،سابق صدر

64

ابوظہبی ۔8ستمبر (اے پی پی):افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے افغانستان سے فرار کے بعد پہلی مرتبہ ٹویٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں افغان عوام سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ ہرگز اپنی عوام کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انہیں یہ فیصلہ لینا پڑا تھا۔

بدھ کو ٹویٹر پر جاری کیے گئے اپنے بیان میں اشرف غنی نے کہا کہ میں 15 اگست کو صدارتی محل کی سیکیورٹی کی درخواست پر ملک چھوڑ کر گیا کیونکہ میں گلی کوچوں میں خونریز لڑائی شروع ہونے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا، انہوں نے کہا کہ کا بل چھوڑنے کا فیصلہ ان کی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا لیکن ا سی طرح ہی بندوقوں کے منہ بند کیے جا سکتے تھے اور کابل اور اس کی ساٹھ لاکھ کی آبادی کو گزند پہنچنے سے بچایا جا سکتا تھا۔

انہوں نے ان تمام دعوؤں کی تردید کی کہ جب وہ فرار ہوئے تو وہ لاکھوں ڈالر ملک سے باہر لے گئے، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔اشرف غنی ، جو اس وقت ابوظہبی میں پناہ گزین ہیں ، نے افسوس کا اظہار کیا کہ اپنے پیشروؤں کی طرح وہ بھی جنگ زدہ ملک میں امن اور خوشحالی لانے سے قاصر رہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں افغان عوام سے معذرت چاہتا ہوں کہ میں اپنی حکومت کو مختلف طریقے سے ختم نہیں کر سکا۔یاد رہے کہ افغانستان میں تاجکستان کے سفیر رہنے والے ظاہر اکبر نے دعوی کیا تھا کہ اشرف غنی ملک سے فرار کے وقت اپنے ساتھ 169ملین ڈالر کیش لے کر گئے تھے ۔