اصلاحات کا ایجنڈا بھرپور انداز میں آگے بڑھائیں گے، 5 سالوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو 14 سے 15 فیصد تک پہنچایا جائے گا، علی پرویز ملک

97

اسلام آباد۔2جولائی (اے پی پی):وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ اصلاحات کا ایجنڈا بھرپور انداز میں آگے بڑھائیں گے، 5 سالوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو 14 سے 15 فیصد تک پہنچایا جائے گا، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا، پلاٹوں پر ٹیکسوں کا استثنیء شہداء اور جنگوں میں زخمی ہونے والے سول و فوجی ملازمین کے لئے مخصوص ہے، مشکل فیصلے ضروری ہیں، معیشت کو پائیدار نمو اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

منگل کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک مشکل گھڑی سے نکل کر بہتری کی راہ پر گامزن ہے، خسارے کم ہو رہے ہیں، اصلاحات کا عمل جاری ہے، مہنگائی میں کمی آئی ہے، سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے، بین الاقوامی جرائد پاکستانی معیشت کی تعریف کر رہے ہیں، سٹاک ایکسچینج میں نمایاں تیزی سے ملکی معیشت پر کاروباری برادری کے اعتماد کی عکاسی ہو رہی ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ بجٹ میں مشکل فیصلے ہوئے ہیں جن کی گونج بھی گئی ہے مگر اس کے ثمرات بھی آنا شروع ہو گئے ہیں، ہمیں پائیدار نمو کے لئے استحکام کی ضرورت ہے، اگر یہ فیصلے نہ کئے گئے تو ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے نہیں نکل سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھا ہے مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں زراعت، سولر اور پنشن اخراجات کے حوالے سے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی، جب بھی مالی گنجائش پیدا ہوگی تو تنخواہ دار طبقے پر اضافی بوجھ واپس لیا جائے گا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں اضافہ ہوا ہے مگر اس کو 60 روپے کی سطح پر برقرار رکھا جائے گا، ہمارے پاس جتنی بھی گنجائش ہوگی اس کے مطابق مختلف شعبوں کو آسانیاں فراہم کریں گے، کیرٹ اینڈ سٹک پالیسی کے تحت معیشت کو دستاویزی بنا رہے ہیں، نان فائلرز پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، مختلف شعبوں کو معمول کے ٹیکس رجیم میں لایا گیا ہے۔ تمام طبقات کو آمدنی کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے، ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں ٹیکس اقدامات کے ذریعے سٹہ بازی کے رجحان کو توڑا گیا ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اضافی ٹیکس اقدامات وقت کی ضرورت ہیں اور اس کے مطابق حکومت نے اپنی منصوبہ بندی کی ہے، پی ایس ڈی پی میں بنیادی ڈھانچے کی خلیج کو مدنظر رکھا گیا ہے، نجکاری کا عمل جاری رہے گا، حکومت معاشی استحکام کے ایجنڈے کو آگے لے کر جائے گی، پی آئی اے کی نجکاری اور اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کی جا رہی ہے، عالمی بینک کے تعاون سے بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے، دیگر وزارتوں اور محکموں کے حوالے سے اقدامات کا سلسلہ جاری رہے گا، وزیراعظم خود سٹیئرنگ کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ وزیر مملکت نے کہا کہ ملکی معیشت کے استحکام اور پائیدار نمو کے لئے صوبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، سارا بوجھ وفاق پر ڈالنے سے وفاقی حکومت مفلوج ہو جاتی ہے، صوبوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنے حصے کے بوجھ کو اٹھانا چاہئے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد حکومت کے پاس سود کی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ پنشن کے حوالے سے اصلاحات کا عمل جاری ہے، سول ملازمین پر اس کا اطلاق ہو چکا ہے جبکہ مسلح افواج کو ایک سال کی مدت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات تکلیف کا باعث ہوں گی مگر ہماری اپیل ہے کہ ملک کو بہتری کے راستے پر لانا ہوگا، ہمیں اپنی چادر کے مطابق اپنے پاؤں پھیلانا ہوں گے، ملک کو نئے اقتصادی ماڈل کی طرف لے جانا ہوگا جو دنیا کے کامیاب ممالک میں رائج ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، آنے والے چند ہفتوں میں اس حوالے سے پیش رفت ہوگی، آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد اصلاحات کا ایجنڈا بھرپور انداز میں آگے بڑھائیں گے۔

5سالوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں 14 سے 15 فیصد تک پہنچایا جائے گا جبکہ سالانہ اضافے کی شرح 1 فیصد کے تناسب سے ہوگی، برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا اور یہ اضافہ جی ڈی پی کے تناسب سے ہوگا، اسی طرح سرمایہ کاری کی شرح کو جی ڈی پی کے 30 فیصد کے برابر کیا جائے گا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ملک میں صرف 5 فیصد لوگ پیکجڈ دودھ استعمال کرتے ہیں، دودھ پر سیلز ٹیکس کا استثنی ٰختم کر دیا گیا ہے تاہم ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ ریٹیلرز اضافی اور ایڈہاک ٹیکس ڈال رہے ہیں، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ صحت عامہ، کھادوں، کیڑے مار ادویات، خیرانی ہسپتال، سٹنٹس اور دیگر ضرورتی چیزوں پر سیلز ٹیکس کا استثنیٰ برقرار ہے۔ وزیر مملکت نے وضاحت کی کہ ریئل اسٹیٹ پر صرف فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا اطلاق کر دیا گیا ہے، باقی ٹیکس اس سے پہلے ہیں، پلاٹوں کی خریداری پر ٹیکس میں استثنیٰ کی چار کیٹگریز ہیں، شہداء، سول و ملٹری افسران و ملازمین جو دوران ملازمت اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں، جنگوں کے زخمی اور ایسے ملازمین جن کو اپنے اداروں کی طرف سے پلاٹ الاٹ ہو، ان کیٹگریز میں شامل ہیں، سیون ایز کا اطلاق شاہد خاقان عباسی نے خود کیا تھا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اگر مشکل فیصلے نہ کرتے تو ملکی معیشت کو چلانا ناممکن ہوتا، 9 ہزار ارب قرضوں کی ادائیگی اور ایک ہزار ارب سے زیادہ کے پنشن اخراجات ہیں، اسی طرح وفاقی حکومت کو چلانے کے لئے ایک ہزار ارب کی ضرورت ہوتی ہے، مہنگائی کا ہدف 12 فیصد رکھا گیا ہے جو گزشتہ سال 23 فیصد تھا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم درست سمت میں گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو تحفظ دیا ہے اور اس مقصد کے لئے 100 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ سولرائزیشن کے لئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔