اسلام آباد۔7دسمبر (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں” بدلتی ہوئی دنیا میں پاکستان“ کے موضوع پر دو روزہ ”اسلام آباد کانکلیو“جاری ہے۔ ”اسلام آباد کانکلیو“ کے دوسرے ورکنگ سیشن کا اہتمام سنٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ نے کیا۔ جاری پریس ریلیز کے مطابق سیشن کے مقررین میں افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے سفیر آصف درانی، افغان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے سابق ڈپٹی سپیکر میرویس یاسینی اور دیگر شامل تھے۔
سیشن کی نظامت ڈائریکٹر سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ آمنہ خان نے کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے سفیر آصف درانی نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پاکستان پر اثرانداز ہوتی ہے اور افغانستان میں نائن الیون کے بعد کی صورتحال کے پاکستان پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس نے ہمیں معاشی اور سکیورٹی کے حوالے سے بھی متاثر کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں کہا کہ غزہ کا حالیہ بحران یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک چھوٹی چنگاری کیسے آگ میں بدل سکتی ہے، پاکستان کا جغرافیہ جغرافیائی سیاسی اور جیو اکنامک اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ مشرق وسطیٰ کے لیے بھی ایک گیٹ وے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب افغانستان کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور خطے کے اندر تجارت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ آصف درانی نے کہا کہ اسرائیل حماس کے درمیان جاری تنازع سے افغانستان عالمی برادری کی ترجیحی فہرست میں نیچے چلا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 95 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کئی دہائیوں کے تنازعات نے تباہی اور عدم استحکام پیدا کیا ہے، اسرائیلی نے غزہ کی پٹی میں نسل کشی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
میرویس یاسینی نے اپنے خطاب میں افغانستان میں پائیدار امن کے حصول پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے باریک بین اور کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے، اگست 2021 میں بغیر کسی خونریزی کے افغان طالبان کو اقتدار کی ہموار منتقلی کو تسلیم کیا جانا چاہیے، اس کے ساتھ سکیورٹی کے موجودہ تسلی بخش حالات اور لچکدار افغان معیشت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ممکنہ انسانی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سردیوں سے پہلے پناہ گزینوں کی تیزی سے واپسی ضروری ہے۔
”اسلام آباد کانکلیو“ کے دوسرے ورکنگ سیشن سے یارا مراد نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خطے اور دنیا بھر میں فلسطین کے حامی یکجہتی کی مضبوط تحریکیں دوبارہ ابھری ہیں اور ایک بار پھر ریاستیں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل پر زور دے رہی ہیں۔ ایڈم وائنسٹائن نے افغانستان اور خطے میں غیر سکیورٹی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں انسانی اور معاشی چیلنجز کے حوالے سے امداد میں کمی آئی ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کے منجمد ذخائر اور خاطر خواہ فنڈز قانونی تنازعات سے مشروط ہیں۔
الزبتھ تھریلکلڈ نے ’پائیدار ترقی کے لیے اقتصادی اور علاقائی رابطے بڑھانے‘ پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 97 فیصد سے زیادہ افغان غربت میں رہ رہے ہیں، آبادی کا تقریباً دو تہائی حصہ بقا کے لیے انسانی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ تمنا سالک الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہا کہ پاکستان دونوں اہم اقتصادی شراکت داروں امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے۔
سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کو سعودی عرب جیسے ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے مسابقتی ہنر مند افرادی قوت جیسی اندرونی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=417589