اسلام آباد۔19جون (اے پی پی):وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پرامن ، محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے واحد راستہ افغانوں میں مفاہمت، بقائے باہمی اور بات چیت ہی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو افغان ٹی وی ’’تولو‘‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔
وزیر خارجہ نے افغاستان میں مستقبل کے لئے ایسے ا نتظامات پر زور دیا جو تمام افغانوں کو قابل قبول ہوں اور کہا کہ امن کے راستے پر ا ٓگے بڑھنے کے لئے تمام افغان رہنمائوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن اور استحکام کے خواہاں ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں استحکام سے علاقائی روابط کو فروغ حاصل ہو گا جو ہماری اور خطے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اقتصادی سلامتی ، سرمایہ کاری ، دوطرفہ اور علاقائی تجارت ، امن اور استحکام نہ صرف افغانستان بلکہ ہماری بھی خواہش ہے اوور یہ ہمارے لئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ ہمیں بھی اس کا فائدہ ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کی سوچ اب بدل چکی ہے اور یہ با ت واضح ہو چکی ہے کہ افغانستان میں امن فوجی ذرائع سے ممکن نہیں ہے یہ بات ہم برسوں سے کہتے آرہے ہیں کہ ا فغان تنازعہ کا فوجی حل نہیں ہے ، اب دنیا یہ جان چکی ہے کہ ا فغانستان میں مسئلے کا حل سیاسی بات چیت سے ہی کسی نتیجے پر پہنچنا ہے اور یہی بات ہم کہتے آئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن صرف اسی صورت ممکن ہے کہ تمام افغان ملکر بیٹھیں اور مفاہمت سے آگے بڑھنے کا راستہ نکالیں ، انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایسا نظام قائم کرنیکی تجویز دی تھی جس سے مفاہمت اور امن عمل میں مدد ملے ۔ انہوں نے کہا کہ امن عمل کیلئے ہم مدد فراہم کرنے کو تیار ہیں اور ہم نے امن عمل کے لئے سہولت کاری کی ہے اور اسے سراہا گیا ہے ۔
ہم افغانستان میں مفاہمت ، بحالی کے لئے مدد فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ ہم افغانستان کے ساتھ اس سلسلے میں شراکت کے لئے آمادہ ہیں ، ہم بالکل امن کے لئے شراکت داری کریں گے ۔ وزیر خارجہ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ افغانستان میں ایک اور خانہ جنگی نہیں ہو گی ، پاک افغان تعلقات کے حوالے سے انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان ایک خود مختار ، جمہوری اور پرامن افغانستان کا خواہاں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں اس وقت جو صورت حال ہے اس کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے ۔ انہوں نےپاکستان میں طالبان کے ٹھکانوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت کی جڑیں افغانستان میں ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت نے افغانستان میں اپنی موجودگی کو پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا ، اگر بھارت، افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کرے تو اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے ۔ وزیر خارجہ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ا من کے لئے خواہش کے اظہار کا بھارت کی طرف سے مثبت ردعمل نہیں دیا گیا اس کے برعکس انہوں نے ایسے اقدامات کئے جن سے ماحول خراب ہوا، اس سلسلے میں انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کا ذکرکیا ، وزیر خارجہ نے افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں کارروائیوں کے لئے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے پر آمادگی کو بھی واضح طور پر مسترد کیا ۔