اسلام آباد۔22ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ افغانستان میں مستحکم اور جامع حکومت خطے کے مفاد میں ہے، پاکستان کے خلاف ہر دور میں سازشیں ہوتی رہی ہیں تاہم پاکستان ہر بار نئی طاقت کے ساتھ ابھرا ہے، قیادت کے لئے ہمت، حوصلہ اور قسمت کا ہونا ضروری ہے، پاکستان میں کئی سال تک حکمرانی کرنے والے لندن میں مفروریت کی زندگی گذار رہے ہیں، پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کی ہے، بھارت کی موجودہ قیادت پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات میں رکاوٹ ہے، نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر اور گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے اپنا قد بڑھایا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں لیڈرز ان اسلام آباد بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج 1100 منصوبے مختلف وزارتوں کے تحت شروع کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں قیادت کیلئے تین بنیادی چیزیں ہمت، حوصلہ اور قسمت ضروری ہیں، کسی لیڈر کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ان تین چیزوں پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر بھارت نے اربوں ڈالر کی فنڈنگ کی لیکن قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا، جب قسمت ساتھ نہ دے تو پیسوں سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ جب اشرف غنی رات کو اڑھائی بجے افغانستان سے فرار ہو کر ازبکستان جانا پڑا تو ان کے پرانے دوستوں نے بھی انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا، وہ صدر کی حیثیت سے افغانستان سے نکلے اور ایک مفرور کی حیثیت اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تین تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے بھی آج برطانیہ میں مفروریت کی زندگی گذار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف ہر دور میں سازشیں ہوتی رہی ہیں، 20 سالوں کے دوران پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کو خطے کی لیڈر شپ سے محروم کیا جائے، افغانستان کے اندر ایک ایسی حکومت رہی جس کا مقصد صرف پاکستان کو کمزور کرنا تھا اور ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ایسے سازشی جال بننے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کمزور ہو لیکن آج الحمد اللہ 20 سال کے بعد سازشیں کرنے والے خاک چھان رہے ہیں اور پاکستان خطے میں زیادہ مضبوط ملک کے طور پر ابھرا ہے۔
آج خطے میں فیصلوں کے لئے پاکستان کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیرا طلاعات نے کہا کہ افغانستان میں جامع حکومت کی بات ہو، وسطی ایشیائی ریاستوں کو سی پیک سے ملانے یا یورپی یونین اور سی پیک کا رابطہ تشکیل دینا ہو، ان تمام باتوں کا تعلق پاکستان کے فیصلوں کے گرد گھومتا ہے۔ یہ تاریخ کا ایک بڑا موڑ ہے کہ پاکستان خطے کے فیصلوں کا ایک اہم پلیئر بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ازبکستان کے ساتھ دو معاہدوں پر دستخط کئے ہیں، ہم گوادر اور کراچی کو بذریعہ مزار شریف تاشقند کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں، اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ گوادر یا کراچی سے وسطی ایشیائی ریاستوں کو جانے والے ٹرکوں کا کسٹم تاشقند میں جا کر ہو، یہ ہمارا گلوبل کنیکٹیویٹی کا فریم ورک ہے، اس فریم ورک کے ذریعے سی پیک، وسطی ایشیائی ریاستوں اور پھر یورپی یونین کے ساتھ جڑ جاتا ہے، اس سے ہماری حیثیت تبدیل ہو جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کو ایک منفرد مقام کی حیثیت حاصل ہے، دنیا کی 64 فیصد آبادی اڑھائی گھنٹے سے تین گھنٹے کی فلائیٹ ریڈیس کے اوپر ہے، ہماری ایک طرف چین اور دوسری طرف ہندوستان ہے، ہم بھارت کے ساتھ اس لئے تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں کہ ہم دنیا کی دو بڑی منڈیوں کے درمیان ایک بہت بڑے کنیکٹیویٹی روٹ فراہم کریں گے لیکن بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کی حکمران جماعت ہے جو اس بنیاد پر ووٹ لے کر آئی کہ وہ مسلمانوں کو ختم کرے گی، وہ نہ صرف پاکستان کے خلاف ہے بلکہ اس نے مقبوضہ کشمیر اور گجرات میں بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا، نریندر مودی نے مسلمانوں کے قتل عام اور ان کی لاشوں پر پائوں رکھ کر اپنا قد بڑا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو شاید کل ہی ہمارے تعلقات بہتر ہو جائیں۔ اس کے بعد خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان کے اندر جامع حکومت کی تشکیل پر زور دیا، وزیراعظم نے کل بھی بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں کہا کہ افغانستان کے اندر اکثریت پختونوں کی ہے اور بہت بڑی مینارٹی تاجکوں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کو تاجکوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان کے ساتھ وزیراعظم کی بات ہوئی ہے۔ ہماری افغانستان میں طالبان کے ساتھ بھی بات چیت چل رہی ہے، ہم انہیں کہہ رہے ہیں کہ جب تک تاجک اور پختون آپس میں مل کر حکومت سازی نہیں کرتے، افغانستان میں استحکام نہیں آ سکتا۔ وزیراعظم نے اشرف غنی سے بھی کہا تھا کہ وہ ایک جامع حکومت کی طرف جائیں، ہم نے تمام دھڑوں کو بلایا اور ان سے مذاکرات کرانے کی کوشش کی لیکن ان مذاکرات کو اشرف غنی نے سبوتاژ کیا اور اس کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس کے نتیجے میں اشرف غنی کو افغانستان چھوڑنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ اب بھی ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں ایک نسلی گروپ حکومت بنائے گا تو دوسرا گروپ لڑائی شروع کر دے گا، اس لئے افغانستان میں جامع حکومت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قائدانہ کردار ایک مستحکم افغانستان کو جنم دے گا، اس کے نتیجے میں کنیکٹیویٹی کے وژن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ پاکستان کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں، ہر سازش کے بعد پاکستان پہلے سے زیادہ مستحکم اور زیادہ بڑا گلوبل لیڈر بن کر ابھرا ہے۔