افغانستان میں پائیدارامن اور استحکام کے قیام کیلئے طالبان کو حکومت سازی کا موقع فراہم کرنا چاہئے، پاک افغان یوتھ فورم کے زیراہتمام کانفرنس سے مقررین کا خطاب

151

اسلام آباد۔3ستمبر (اے پی پی):افغانستان میں پائیدارامن اوراستحکام کے قیام کیلئے طالبان کو حکومت سازی اورنظام کواستوارکرنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے تاکہ ملک میں تعمیرنو اوربحالی کاعمل ٹھوس بنیادوں پرشروع کیا جا سکے، افغانستان کے پڑوسی ممالک کو ملک کی تعمیرنو میں اپنا کرداراداکرنے کی ضرورت ہے، وسائل سے استفادہ کرنے اوربین الاقوامی تجارت کیلئے افغانستان میں ٹیکس، بینکنگ اور تجارت کا مربوط نظام ضروری ہے، بھارت اور بعض طاقتیں افغانستان میں جنگ کا تسلسل برقرار رکھنا چاہتی ہیں، افغانوں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار پاک افغان یوتھ فورم کے زیراہتمام ”افغانستان کی مشرکہ تعمیرنو“ کے موضوع پرمنعقدہ کانفرنس سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کے صدر ندیم ریاض نے کہا کہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان تاریخی مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتے قائم ہیں، افغانستان کے ساتھ بہترتعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کااہم حصہ ہے، افغانستان جن حالات سے گزررہاہے امید ہے کہ وہ بہترنتائج پرمنتج ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات استعداد سے کم ہے، امریکی افواج کے انخلا نے مسائل کے ساتھ مواقع بھی فراہم کئے ہیں جن سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاہم صورتحال کوخراب کرنے والے بھی موجود ہیں جن سے چوکنا رہنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں جامع اوراتفاق رائے سے بننے والی والی حکومت کو تسلیم کرنا چاہئیے اس کے ساتھ ساتھ بیرونی مداخلت کی وجہ سے پاکستان اورافغانستان کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کودورکرنا بھی ضروری ہے۔پاکستان اورافغانستان کومل کرایک نئے دورکاآغازکرناچاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشکل اور آزمائش کے وقت میں پاکستان کی حکومت اورعوام اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم افغانستان کے ساتھ معیشت، تجارت اورثقافت سمیت تمام شعبوں میں بہترتعلقات چاہتے ہیں۔

پاک افغان یوتھ فورم کے ڈائریکٹرجنرل سلمان جاوید نے کہاکہ یہ دونوں ممالک کے نوجوانوں کویکجاکرنے کا پراجیکٹ ایک سال قبل شروع کیا تھا جس میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے،دونوں ممالک کے میڈیا اوردانشوروں کے درمیان مثبت روابط کا آغاز ہوا ہے جو خوش آئندہے۔کابل کے سابق گورنر احمدعلی زئی نے کہاکہ ہم پاکستان کے ساتھ پائیدارتعلقات اوردوستی چاہتے ہیں۔ پاکستان اورافغانستان کے عوام کے درمیان رشتے اٹوٹ ہیں کیونکہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیادپرقائم ہوا اور افغانستان بھی اسلامی ریاست ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ امریکا افغانستان میں افغان عوام کیلئے نہیں بلکہ اپنے مفادات کیلئے آیاتھا۔افغان قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کے دست راست مولوی عطاءالرحمان نے کہا کہ موجودہ حالات کے تناظرمیں افغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان اہم کرداراداکرسکتاہے، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط مضبوط ہیں اورکوئی ان کی اہمیت کم نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کوئی بھی گروپ اکیلے حکومت نہیں چلا سکتا اورحالات کاتقاضا ہے کہ ملک میں پڑوسی ممالک کی مشاورت سے جامع اوروسیع البنیادحکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

بعد ازاں مجلس مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے ماہربین الاقوامی امور اور سائوتھ ایشیا سٹرٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹرماریہ سلطان نے کہا کہ طالبان کے سامنے سب سے پہلا اور اہم مسئلہ افغان ریاست کے استحکام اور دوسرا ملک میں سلامتی کی صورتحال کو برقرار رکھنے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی ممالک کو چاہئے کہ وہ بین الاقوامی تجارت کو پائیداربنیادوں استوار کرنے میں نئی افغان حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں فریق ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پابندیاں کبھی کبھار ممالک کیلئے اچھی ہوتی ہیں، افغانستان کو معاشی مشکلات کے حل کیلئے ٹیکس اور بینکنگ کا پائیدار نظام بنانا ہو گا۔ بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ جب تک افغانستان میں مستحکم سیاسی نظام کا قیام عمل میں نہیں لایاجاتا اس وقت تک مسائل موجودرہیں گے۔

انہوں نے کہاکہ دوحہ مذاکرات سے ہی طالبان کو کچھ حد تک قانونی جواز میسر آیا ہے لیکن افغانستان میں تین، چار سال تک طالبان الیکشن کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، آنے والے تین، چار سال بہت اہم ہیں اور بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ وہ اس وقت تک طالبان کو وقت دیں، اگر واقعی طالبان نے کچھ سیکھا ہے تو اسے ایک موقع ملنا چاہئے، علاقائی ممالک کو بھی چاہئے کہ وہ طالبان کی جانب اپنائے جانے والے نظام کی حمایت کریں۔ انہوں نے کہا کہ نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے میں ہمیں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

عبدالباسط نے کہا کہ بھارت نے ماضی میں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا تھا، امریکی انخلاءکے بعد چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، امریکا چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے بھی خلاف ہے، اس وقت کئی بین الاقوامی کھلاڑیوں کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان میں امن نہ ہو، افغانوں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا، بھارت خواہش ہے کہ افغانستان میں جنگ جاری ہو، پاکستان کو افغانستان میں کسی خاص گروپ کی نہیں بلکہ افغان عوام کی حمایت کرنی چاہئے اور فیصلے افغانوں کو کرنے دینا چاہئے۔

افغان صوبہ نورستان کے سابق گورنر جمال الدین بدر نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری صرف طالبان پر ڈالنا درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعتماد کے فقدان کی وجہ سے بعض افغان شہری ملک سے باہر جانے کی کوشش کر رہے ہیں، افغانستان میں اقتصادی حالت خراب ہے تاہم نئی حکومت کا اعلان ہوتے ہی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک نے اب تک اچھا کردار ادا کیا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ ہو گا۔

پہلے سیشن کی اختتامی تقریب کے کلیدی سپیکر سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال سے بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگیں جہاں تباہی لاتی ہیں وہیں یہ ترقی کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں، یورپ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد شاندار ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جن لوگوں نے افغانستان میں بگاڑ پیدا کیا وہ اسے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے، صورتحال کو اب افغان عوام نے سنبھالنا ہے، جب تک گولی اور بندوق کا استعمال ختم نہیں ہوتا اس وقت تک امن نہیں آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کی تعمیرنو و بحالی میں بھرپور معاونت فراہم کرنا چاہئے، اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں، دانشوروں، طلباءاور عوام کے درمیان رابطوں کے فروغ کیلئے ایک جامع اور موثر پلیٹ فارم کی شدت سے ضرورت ہے۔