داعش سے چھٹکارے کیلئے طالبان واحد آپشن ہیں، انہیں تنہا کرنے سے افراتفری اور انسانی بحران جنم لے سکتا ہےوزیراعظم عمران خان کا مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو

200

اسلام آباد۔11اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکو مت ہمسایہ ممالک کی خواہش ہے، داعش سے چھٹکارے کیلئے طالبان بہترین اور واحد آپشن ہیں، انہیں تنہا کرنے اور پابندیاں عائد کرنے سے افراتفری اور انسانی بحران جنم لے سکتا ہے، افغانستان میں افراتفری سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو گا، افغانستان سے انخلاء کے بعد کے حالات سے امریکی صدمہ میں ہیں، امریکہ کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا، امریکی عوام کو اصل صورتحال سے کبھی آگاہ ہی نہیں کیا گیا، تحریک طالبان پاکستان کے جن لوگوں سے صلح ہو سکتی ہے ان سے بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں،

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے، پاکستان نے انہیں الحاق کے علاوہ بھی آپشن دیا ہے، اگر وہ آزاد ملک کے طور پر رہنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ جمہوری حق حاصل ہو گا، اسرا ئیل کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے مشرق وسطی کے کسی ملک نے ہم پر دبائو نہیں ڈالا، پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، وہ اپنے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، دہشت گردی کا اسلام سے تعلق جوڑنا درست نہیں، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر کے مایوس کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے پیر کو مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد رونما ہونے والے واقعات ابھی ارتقائی مراحل میں ہیں ، معلوم نہیں کہ یہ کیا کروٹ لیں گے، امریکہ کے انخلاء کے بعد وہاں ایک خلاء پیداہوگا، ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ ایک زبردست موقع ہے کیونکہ افغانستان ان تمام ممالک کیلئے ایک تجارتی گزرگاہ ہے، وسط ا یشیائی ممالک افغانستان کے راستے بحرِ ہنداور پاکستان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ یا چین کا طرفدار ہونے کے سوال کے بجائے اقتصادی تعاون اوراقتصادی رابطہ ہونا چاہیے جو اس خطہ کی ضرورت ہے اور ہم یہی امید کرتے ہیں۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیس سالہ خانہ جنگی سے افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ، حقیقت میں افغان حکومت کا کنٹرول صرف شہروں کی حد تک تھا، دیہی علاقے طالبان کے زیرِ اثر تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے حکومت سنبھال لی ہے، بیس سال بعد اقتدار میں آنے کے بعد ایسے لوگوں سے معاملہ کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ملکر بہت سی قربانیاں دی ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت بنے، طالبان حکومت بھی چاہتی ہے کہ انہیں بین الاقوامی قبولیت ملے، وہ انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دیئے جانے کی بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ افغانستان کیلئے بہت نازک لمحہ ہے، دنیا کو افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے ، اگر انہیں دور کریں گے تو بڑی آسانی سے معاملات بیس سال پرانے طالبان کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں جو کہ تباہی ہو گی اور اس سے نیٹو کی بیس سالہ موجودگی، دوہزار ارب ڈالر کا خرچہ، لاکھوں لوگوں کا جان سے جانا ضائع جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بحران کی واپسی سے وہاں افراتفری ہوگی، افغانستان آئی ایس آئی ایس جیسے دہشت گردوں کیلئے ایک زرخیز زمین بن جائے گی جو کہ درحقیقت ہم سب کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایک مستحکم افغان حکومت آئی ایس آئی ایس سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے، طالبان آئی ایس آئی ایس سے چھٹکارا پانے کیلئے بہترین اور واحد آپشن رہ گئے ہیں، انہیں تنہا کرنا، ان پر پابندیاں عائد کرناباقی اثرات اورافراتفری کے علاوہ ایک بہت بڑے انسانی بحران کو جنم دے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گزر بسر کر رہی ہے، اقوامِ متحدہ کا خیال ہے کہ اگلے سال تک 95 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی جائے گی،

حکومت اپنے بجٹ کے 75 فیصد کیلئے بیرونی امداد پر انحصار کرتی تھی اگر وہ انہیں ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں تو خدشہ یہ ہے کہ وہاں صورتِ حال دوبارہ روسی انخلاء جیسی ہوجائے گی جب روسی نکلے اور امریکی افغانستان کو چھوڑ کر چلے گئے تھے تب کی افراتفری میں دو لاکھ افغانیوں کی جانیں گئی تھیں اور اسی افراتفری میں طالبان ابھرے تھے، اس لئے یہ ایک نازک لمحہ ہے اور امریکہ کو خود کو مجتمع کرنا ہوگا کیونکہ امریکی اس وقت صدمے کی کیفیت میں ہیں، ان کا خیال تھا کہ وہاں جمہوریت ہوگی قوم تشکیل پائے گی اور خواتین کوآزادی ملے گی مگر اچانک طالبان دوبارہ آگئے، وہ شدید غصہ،حیرت اور صدمہ کی کیفیت میں ہیں تاہم جب تک امریکہ قائدانہ کردار نہیں سنبھالتا ہمیں یہاں تشویش ہے کہ افغانستان میں افرتفری سے جو ملک ان کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہو گا وہ پاکستان ہے۔

وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے سکیورٹی کے سربراہان کی امریکی حکام سے بات چیت ہوئی، ہمارے وزیرِ خارجہ کا امریکہ کے وزیرِ خارجہ سے رابطہ ہے، ہم رابطے میں ہیں، ہم یہ ساری باتیں امریکہ کے ساتھ کر چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں سینیٹ میں ان کی کارروائی سن رہا تھا، امریکہ میں صدمہ کی کیفیت ہے، انہیں یقین نہیں آرہا کہ افغانستان میں ہوا کیا ہے کیونکہ ان کو واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں جمہوریت لائی گئی ہے، خواتین کو آزاد کردیا گیا ہے، افغان ایک قوم بن رہے ہیں تاہم وہ یقین نہیں کر پا رہے کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے ہیں ۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغان فوج پراربوں ڈالرخرچ کئے گئے لیکن تین لاکھ افغان فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دئیے،اس کی امریکیوں کو سمجھ نہیں آرہی ہے کیونکہ انہیں اصل صورتِ حال سے کبھی آگاہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے 2008ء میں امریکی تھنک ٹینکس اور سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری اور ہیری ریڈ سے ملاقات میں ان پر واضع کر دیا تھا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں نکل سکتا، اس وقت وہ عراق کی بات کر رہے تھے میں نے انہیں کہا کہ وہ اس سے بہت بڑی دلدل ثابت ہو گی، وہ افغانستان کی تاریخ سے واقف نہیں تھے، ہمارے آرمی چیف جنرل کیانی دو سال بعد وہاں گئے انہوں نے صدر اوباما سے کہا کہ آپ بہت بڑا گند افغانستان چھوڑ آئیں گے جس سے ہمیں نبردآزما ہونا پڑیگا اور آپ کوئی فوجی حل نہیں نکال سکیں گے، بد قسمتی سے صدر اوباما اس وقت جرنیلوں کے ہتھے چڑھے ہوئے تھے اور جرنیلوں نے ہمیشہ کی طرح مزید فوجی اور وقت مانگا اور کہا کہ ہم جنگ جیت جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد روسیوں کے انخلاء کے وقت کی خانہ جنگی کی توقع کر رہے تھے لیکن ہم بہت مطمئن ہیں کیونکہ یہ پرامن انتقال اقتدار تھا، یہ سب کیلئے اچھا ہوا، ہمیں یہ خدشہ بھی تھاکہ خونریزی کا الزام بھی ہم پر آئے گامگر چونکہ تین لاکھ فوجیوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دئیے، زمینی حقیقت یہ تھی کہ دیہی علاقوں میں خاص طور پر طالبان تحریک مقبولیت حاصل کرتی گئی یہی وجہ ہے کہ فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دئیے، دوسرا اشرف غنی کی حکومت پوری طرح کرپٹ تھی پہلی بات یہ کہ انہیں کٹھ پتلی حکومت کے طور پر دیکھا گیا دوسرا ایک کرپٹ حکومت کے طور پرتو ان کے لئے کون لڑتا۔

وزیراعظم نے افغانستان میں جامع حکومت کے حوالہ سے سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان کا موقف ہے کہ یہ ایک عبوری حکومت ہے اور وہ باقی لوگوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت افغانستان میں ایک جامع حکومت کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان ایک متنوع معاشرہ ہے، اس میں پشتون 50 فیصد ہیں، وہاں تاجک بھی بڑی تعداد میں ہیں ، میں نے تاجکستان کے صدر کے ساتھ مل کر پوری کوشش کی ہے کہ وہ کسی طرح اکٹھے ہوں، پھر وہاں ازبک بھی ہیں، ازبکستان کوشش کر رہا ہے کہ انہیں بھی اکٹھا کیا جائے، ہمسایوں کی اس میں دلچسپی ہے کہ وہ سب ایک جامع حکومت تشکیل دیں جوایک پائیدار حکومت ہو۔

وزیراعظم نے کہا کہ کابل میں خواتین کیلئے ثقافت دیہی علاقوں کے مقابلے میں ہمیشہ سے مختلف رہی ہے، دیہی علاقوں میں خواتین کی زندگیاں تبدیل نہیں ہوئیں، وہ ایسے ہی زندگی گزارتی ہیں یہ ان کی ثقافت ہے اسے تبدیل ہونے میں شاید وقت لگے گا، اصل مسئلہ کابل کا ہے اگر آپ 50 سال پہلے کابل گئے ہوتے تو دیکھتے کہ کابل کی ثقافت باقی علاقوں سے مختلف تھی، طالبان نے کہا ہے کہ وہ خواتین کو تعلیم دیں گے، انہیں نوکریوں پر جانے کی اجازت دیں گے، اسلامی ثقافت کے مطابق میرا نہیں خیال کہ انہیں اس حد تک مجبور کیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے سے ان کے لئے اندرونی مسائل شروع ہو جائیں گے،

انہیں وقت دیں،انہوں نے اچھے بیانات دئیے، ہمارے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں، اگر ہم ان پر پابندیاں عائد کرتے ہیں توافغانستان میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہوجائے گا وہاں افراتفری پھیل جائے گی، بہتر یہی ہے کہ انہیں ترغیبات دیں کہ جو وہ کہہ رہے اس پر عمل کریں اگر آپ انہیں مجبور کریں گے تو جس قسم کے وہ لوگ ہیں وہ مزاحمت کریں گے یہ الٹا نقصان د ہ ثابت ہو گا۔ ٹی ٹی پی کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سرحد کے پاکستانی جانب کے پشتون ہیں، طالبان پشتونوں کی تحریک ہے،

افغانستان میں 45 سے 50 فیصد پشتون آباد ہیں، برطا نیہ کی جانب سے کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن کی پاکستانی جانب دوگنا پشتون آباد ہیں تاہم جو علاقہ قبائل کہلاتا ہے اس کے دوسرے جانب بھی پشتون قبائل ہیں جہاں کوئی حقیقی سرحد نہ تھی، ڈیورنڈ لائن کو انہوں نے کبھی تسلیم نہ کیاوہ آزادانہ اس علاقے میں آتے جاتے تھے، اب ہم نے سرحد پر باڑ لگا دی، جب امریکہ افغانستان پرحملہ آور ہوا انہوں نے طالبان کو نکال باہر کیاتو اس طرف کے پشتونوں کو افغانستان کے پشتونوں سے مکمل ہمدردی ہو گئی، اس ہمدردی کی وجہ مذہبی نظریات نہیں تھے بلکہ پشتون عصبیت اور قومیت تھی جو بہت مضبوط ہے جب ہم امریکہ کے اتحادی بن گئے تو وہ ہمارے مخالف ہو گئے، انہوں نے ہمیں امریکہ کا ساتھی کہااور ریاستِ پاکستان پر حملہ آور ہوگئے اور خود کوپاکستانی طالبان کہنا شروع کر دیا جو ہمارے اتحاد کا حصہ بننے سے پہلے ہمارے ہاں نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی تھاکہ پچاس کے قریب مختلف گروہ جو خود کو طالبان کہتے تھے ہم پر حملہ آور تھے، پاکستان کے اندر دہشت گردی کے 16 ہزار حملے ہوئے، 80 ہزار پاکستانیوں نے اس میں جانیں دیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پشتونوں سے لڑنے والوں کے ہم ساتھی نہیں ہیں، اس لئے اب ہم ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے ساتھ صلح ہوسکتی ہے۔

کشمیر کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس بات کی توثیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو قراردادوں میں کی گئی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر کے عوام کو استصواب رائے کے ذریعے ان کو فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے گی کہ آیا وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، انہیں یہ حق کبھی نہیں دیا گیا لیکن 5 اگست 2019 کو اوربھی برا ہوا جب بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی جو ان کو حق خودارادیت کے حصول تک حاصل تھی، بھارت نے 90 ہزار فوجی بھیج کر وہاں کرفیو نافذ کر دیا، حقیقت میں اس وقت کشمیر ایک کھلی جیل ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم اس کو ایک علاقائی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھ رہے ہیں، ہم نے پاکستان میں انہیں ایک اور آپشن دیا ہے، انہیں پاکستان یا بھارت کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے اگر وہ ایک آزاد ملک کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں تو انہیں یہ جمہوری حق بھی حاصل ہوگا، اب گیند بھارت کی کورٹ میں ہے، وہ غیر معینہ مدت تک ان لوگوں کو ایک کھلی جیل میں نہیں رکھ سکتے، اب بھارت باہر سے لوگوں کو لاکر آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس حوالے سے بھی ایک آئینی شق تھی جو ایسا کرنے کی کی راہ میں رکاوٹ تھی کہ باہر سے لوگوں کو لاکر کشمیر میں آباد کیا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جنیوا کنونشن میں بھی یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ آپ ایک مقبوضہ ملک میں آبادی کا تناسب تبدیل نہیں کر سکتے جب تک یہ واضح نہ ہو جائے کہ وہ بھارت کا حصہ ہیں دراصل وہ انہیں مسلمان اکثریت سے مسلمان اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پوری دنیا میں نیوکلیئر فلیش پوائنٹ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہے، جہاں دوجوہری ملک جن کے درمیان جوہری ملک بننے سے قبل تین جنگیں ہو چکی ہیں لیکن اس وقت سے نیوکلیئر ڈیٹیرنس کی وجہ سے ہمارے درمیان جنگ نہیں ہوئی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب کشمیر میں خود کش بم دھماکہ ہوا اور اس میں بھارتی فوجی مارے گئے جس کا الزام انہوں نے پاکستان پر لگایا، ہم یہ کہتے رہے کہ ہمیں ثبوت فراہم کریں اور ہم اس کے ذمہ داروں کو سزا دیں گے بلکہ ان کو بھارت کے حوالے کر دیں گے لیکن ہمیں ثبوت فراہم کرنے کی بجائے انہوں نے ہمارے اوپر بمباری کی، خوش قسمتی سے اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، پاکستاں نے اس کا رد عمل دیا اورایک بھارتی جنگی طیارہ بھی مار گرایا، اس صورتحال میں، مجھے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر لگتا ہے کہ حالات کسی طرف بھی جا سکتے تھے ہم نے ان کے پائلٹ کو فوری طور پر واپس کر دیا تاکہ صورتحال کو معمول پر لایا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر دو جوہری طاقتوں کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو جیسا کہ ہمیں ہوا تھا تو حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یو این جنرل اسمبلی سے خطاب میں یاد دلایا کہ اقوام متحدہ ایسی صورتحال کے سدباب کیلئے بنایا گیا تھا، کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے، یہ آپ کی اپنی سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں، اقوام متحدہ کی پاس کردہ قرارداد پر مشرقی تیمور کو حق دیا گیا، انہیں استصواب رائے کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا اور انہوں نے آزادی حاصل کر لی، کشمیریوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا، بدقسمتی سے اگر آپ ایک بڑا ملک ہیں اور دوسرے ملکوں کیلئے آپ ایک بڑی منڈی ہیں تو آپ کو ایک طرح کی چھوٹ مل جاتی ہے اور آپ بچ نکلتے ہیں جب کہ مشرقی تیمور کو یہ چھوٹ نہیں ملی۔

وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات ہیں، نریندر مودی کے دورہ اسرائیل سے واپسی پر کشمیر پر چڑھائی اور 5 اگست 2019 کے اقدام سے کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے وہاں سے ہدایات لیں کیونکہ یہی کچھ اسرائیل نے بھی کیا ہے، اسرائیل نے سکیورٹی کا اتنا مضبوط حصار قائم کیا ہوا ہے اور وہ ہر چیز کو تہس نہس کر دیتے ہیں، وہ دوسرے ملک میں اپنے لوگ بھیجتے ہیں اور قتل و غارت کرتے ہیں، انہیں مکمل طور پر استثنی حاصل ہے کیونکہ یواین جنرل اسمبلی کچھ بھی کہے انہیں سلامتی کونسل میں امریکہ کی ویٹو کی طاقت پر مکمل اعتماد ہے اس لیے وہ ہر صورتحال سے بچ نکلتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں چونکہ اس وقت بھارت کو چین کے خلاف مزاحمتی قوت سمجھا جاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایسے ہی ہے کہ بھارت بھی کسی بھی صورتحال سے بچ نکلے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میرا نکتہ یہ ہے کہ جب وہ ہمیں دیگر جگہوں پر انسانی حقوق کے تناظر میں بات کرنے کو کہتے ہیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی تو کشمیر میں ہورہی ہے، کشمیر سے بدتر صورتحال کہیں بھی نہیں ہے۔

مشرق وسطی کے کسی ملک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی نے ہم پر دباؤ نہیں ڈالا، پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ہم اپنے لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف گمراہ کن اور سنسنی کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں اس کیلئے مسلمان ملکوں کی قیادت کو بھی ذمہ دار ٹھہراتا ہوں پہلی بات یہ ہے مسلمان ملکوں کی قیادت نے اس بات کی اجازت کیوں دی کہ دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑا جائے، اسلام کا دہشت گردی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ان دنوں جب کرونا وائرس کی بھارتی قسم سامنے آئی، جس نے دنیا میں تباہی پھیلائی تو بھارتی عوام نے کہا کہ اس وائرس کو بھارتی قسم کہنے کی بجائے ڈیلٹا قسم کہا جائے،

درست بات ہے کہ ایک وائرس کو کسی قوم کے ساتھ کیوں منسوب کیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایسے ہی دہشت گردی کو کیوں کسی مذہب کے ساتھ منسوب کیا جائے، کوئی بھی مذہب دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، نائن الیون کے بعد دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا اور پھر انتہا پسند اسلام کی بات کرنا ایسے ہے جیسے اسلام کی کوئی انتہا پسند قسم ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام صرف ایک ہی ہے جو ہمارے نبی ﷺکا اسلام ہے، مسلمانوں کے ہاں بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی بھی انسانی برادری میں میانہ رو، انتہا پسند اور آزاد خیال لوگ پائے جاتے ہیں، برطانیہ میں سکن ہیڈز ایشیائی لوگوں پر تشدد کرتے تھے، کیا ان سکن ہیڈز کو برطانوی معاشرہ کے عکاس کے طور پر دیکھتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آپ کسی مذہب یا انسانی برادری کو اس کی انتہائوں کی بنیاد پر نہیں پرکھ سکتے، یہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہاں جنونی لوگ ہوتے ہیں جیسے نیوزی لینڈ میں بندوق بردار شخص مسجد میں داخل ہوکر 50 نمازیوں کی جان لے لیتا ہے تو جب آپ انتہاپسند اسلام کی بات کرتے ہیں تو مغرب میں ایک عام شخص، ایک میانہ رو اور انتہا پسند مسلمان میں کیسے تفریق کرے گا، تو سارے مسلمان ہدف بن جاتے ہیں اور یہی اسلامو فوبیا ہے، نائن الیون کے بعد جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا تھا تو لوگ اس امید سے دعا کرتے تھے کہ اس کے پیچھے کسی مسلمان کا ہاتھ نہ ہو کیونکہ ہر کسی پر شک کیا جاتا تھا،

میں یہ کبھی بھی بھول نہیں سکتا کہ نائن الیون کے بعد مجھے ایک غیر ملکی صحافی نے فون پر کہا کہ آپ کومسلمان ہونے پر شرم نہیں آتی کیونکہ 19 جنونی لوگوں کے فعل کا ذمہ دار ایک ارب 30 کروڑ افراد کو ٹھہرایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس فون پر دھچکا لگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مغرب میں لوگ انتہا پسند اسلام اورمیانہ رو اسلام میں تفریق نہیں کرتے تو ایک عام آدمی کیسے کر سکتا ہے اس لیے سارے مسلمان خاص طور پر جو بظاہر اپنے حلیے سے مسلمان نظر آتے ہیں جو اپنا سر ڈھانپتے یا داڑھی رکھتے ہیں وہ ہدف بن گئے، ان کی توہین کی گئی، میں ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جن پر تشدد کیا گیا یا جن کو قتل کر دیا گیا، میں عام لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کو مغربی ممالک میں گلیوں میں گالیاں دی گئیں محض اس لیے کہ وہ حلیے سے مسلمان دکھائی دیتے تھے،

میں سمجھتا ہوں یہ انتہائی ناانصافی تھی مسلمان ملکوں کی قیادت کو اس بارے میں بات کرنا چاہیے تھی اور انہیں اسلام کو دہشت گردی سے الگ کرنا چاہیے تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دوسری بات جس کا آغاز سلمان رشدی کے ساتھ ہوا، مغرب کے لوگوں میں مذہب کا تصور وہ نہیں جو ہمارے ہاں ہے، وہ یہ نہیں سمجھ سکتے جو محبت، عزت و احترام نبیۖ ﷺکیلئے ہمارے دلوں میں ہے۔ لوگوں کے دلوں میں کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں ان کیلئے بے پناہ محبت اور احترام ہے، مجھے معلوم ہے کہ مغربی ملکوں میں مذہب کی کیا صورتحال ہے، میں جب برطانیہ گیا تو وہاں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے بارے میں برائن کی زندگی نامی مونٹی پائتھن فلائنگ سرکس چل رہا تھا میں حیران رہ گیا کیونکہ میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔

اظہار رائے کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ مغرب میں لوگ جس طرح زندگی گزارتے ہیں اس کا علم ہے، اگر آپ نبیۖ ﷺکا تمسخر اڑائیں یا توہین کریں جیسا کہ سلمان رشدی نے کیا تھا، تو یہ مسلمانوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور توہین آمیز بات ہے، سلمان رشدی نے نبیۖ ﷺکی شان میں گستاخی کی، اس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی۔ وزیراعظم نے کہا کہ جس طرح ہولوکاسٹ سے یہودی برادری کو دکھ پہنچتا ہے کیونکہ اس سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے، میں انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کسی کو بھی انسانی برادری کو دکھ پہنچانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اگر ہم نے ایک گلوبل ویلیج میں رہنا ہے تو ہر انسانی برادری کو یہ بتانا چاہیے کہ کس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے،

میں تاریخی حوالے سے ہمیشہ نبیﷺ کے بارے میں مغربی ادیبوں کی کتابیں پڑھتا ہوں یہ ان کی تشریح ہوتی ہے جس سے ہم اتفاق نہیں کرتے لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ صدر میکرون کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ وہاں کی مسلمان برادری کے ساتھ کیسے چلنا ہے، جب تک وہ نہیں سمجھتے تو یہ بد نما سلسلہ جاری رہے گا پھر کوئی ہمارے پیغمبرۖ ﷺکی توہین کرے گا۔ اس کا انتہائی رد عمل ہوگا اور اس کے نتیجے میں پرتشدد حملہ ہو سکتا ہے اور اس کے باعث فرانسیسی معاشرے میں شدید رد عمل آ سکتا ہے اور وہ کہیں گے کہ ان لوگوں کو آزادی اظہار رائے کی سمجھ نہیں ہے جو ہمارے مذہب کی طرح ہے ان کا ایسا رد عمل ہوگا،

پولیس مساجد پر ہلہ بولے گی اور پھر وہ مسلمانوں کو محدود کر دیں گے اور پھر ان کی طرف سے رد عمل آئے گا تو اس طرح وہ ایک چکر میں پھنس کر رہ جائیں گے اس صورتحال سے نکلنے کیلئے انہیں ایک اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا یا تو آپ کو سب مسلمانوں کو ملک سے نکالنا ہوگا جیسا 1492 میں سپین نے کیا تھا یا پھر مل جل کر رہنے کا کوئی ضابطہ ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ہاں پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ہے یہ قانون برطانیہ نے بنایا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ آئندہ ماہ برطانیہ میں ہونے والے ماحولیات کے حوالہ سے کانفرنس میں شرکت پر غور کر رہے ہیں

، ہم میں سے کچھ لوگ قدرتی ماحول میں رہتے ہیں، پاکستان دنیا میں ٹریکنگ کیلئے انتہائی خوبصورت ملک ہے، میری ساری زندگی قدرتی ماحول میں گزری ہے ، میرے جیسے لوگوں نے ماحولیاتی تبدیلی کو آتے ہوئے دیکھا ہے، آپ دیکھ سکتے تھے کہ آہستہ آہستہ درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور گاؤں میں رہنے والے لوگوں نے جو قدرت کے قریب رہتے تھے انہوں نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا، میں سمجھتا ہوں کہ یقینی طور دنیا کو گذشتہ دوسال میں عجیب و غریب موسمی تبدیلیوں کے بارے میں ادراک ہوا اور جرمنی جیسے ملک بھی متاثر ہوئے، کیلیفورنیا، سائبیریا اور بحیرہ روم کے ممالک میں آگ لگی، میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں نے اب محسوس کیا ہے اور انسانی بقاء کی جبلت متحرک ہوئی ہے کہ اگر اسی رفتار سے یہ سلسلہ جاری رہا تو صورتحال بدتر ہو جائے گی، اس لیے یہ ہنگامی صورتحال ہے، مجھے صرف اس بات کی پریشانی ہے کہ کاربن کے اخراج کے بڑے ذمہ دار ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک ہیں حقیقت میں اس اخراج میں ان کا بڑا حصہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ درست طور پر آواز بلند کررہے ہیں

لیکن وہ مشکل فیصلے کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں کیونکہ قابلِ تجدید ذرائع کی جانب تبدیلی ایک مشکل امر ہے، پہلے ہی یورپ میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کی بات چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے لیے ترقی، شرح نمو، نوکریاں ماحول سے زیادہ اہم تھیں، جب تک ماحول کو ان سب سے اہم حیثیت نہیں ملتی تو اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم بہت سی کانفرنسیں کریں گے، انتخابات کیلئے لوگ درست طور پر آواز بلند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوپ 26 کو پیسہ خرچ کرنا ہوگا،

ہمارے جیسے ملک اپنی حیثیت سے بڑھ کر کر رہے ہیں، ہم 10 ارب درخت لگا رہے ہیں، ہم نے ایک ارب درخت لگانے سے آغاز کیا تھا، اب تک ہم ڈھائی ارب درخت لگا چکے ہیں اور پھر ہم کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس میں کمی کر رہے ہیں، ایک ابھی چل رہا ہے اور اگر ہمیں مالی مدد مل جاتی ہے تو ہم اس کو بھی قابل تجدید توانائی میں تبدیل کر دیں گے اور پھر ہم مختلف طریقوں سے اپنے پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور دریاؤں کو صاف کرکے اپنی فضاء کو بہتربنا رہے ہیں لیکن ہم کچھ بھی کرلیں جب تک امیر صنعتی ممالک اقدامات نہ کریں، مجھے ڈر ہے کہ کیونکہ مضرگیسوں کے اخراج میں ہمارا حصہ انتہائی کم ہے جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ کے تعلقات اور دوسری ٹیموں کی کرکٹ کے تعلقات کا ارتقا دیکھاہے میں سمجھتا ہوں کہ انگلینڈ میں آج بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ کرکٹ کھیل کر ان پر احسان کر رہے ہیں ایک وجہ تو بظاہر پیسہ ہے جو ایک اہم جزو ہے پیسہ کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈ دونوں کیلئے اہم ہے بھارتی کرکٹ بورڈ دنیا کا امیر ترین کرکٹ بورڈ ہے، اس وقت بھارت عالمی کرکٹ کو کنٹرول کرتا ہے ان کا جو جی چاہتا ہے وہ کہتے ہیں اور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ بھارت کیساتھ ایسا کرسکیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ بھارت میں کافی پیسہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ انگلینڈ نے دورہ پاکستان منسوخ کر کے خود کو مایوس کیا ہے، ہمیں انگلینڈ سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ یکطرفہ طور پر بغیر کسی سے مشورہ کیے ایسا اقدام اٹھائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی ٹیموں اور ان کے تحفظ کیلئے سب سے بڑی پریشانی ہماری ہے تصور کریں اگر پاکستان میں کسی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کچھ ہوجاتا ہے تو ہم ذمہ دار ہیں ہمارے پاس دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہے، ہماری طرف سے مکمل تحفظ تھا، نیوزی لینڈ والے بھی ڈر گئے اور ملک چھوڑ گئے لیکن آپ جانتے ہیں میں اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، میں سمجھتا ہوں کہ ٹیموں نے مایوس کیا ہے،نیوزی لینڈ نے مایوس کیا سٹیڈیم کے اندر سے دورہ منسوخ کرکے جس کے بارے میں ہم جانتے تھے کہ بھارت کی جانب سے سنگاپور سے شروع کی گئی یہ بات جعلی ہے، اس پر وہ پریشان ہوئے اور چلے گئے اور بعد ازاں انگلینڈ نے کسی سے مشاورت کے بغیر منسوخ کر دیا، میرے خیال میں انکے اپنے لیے یہ مایوس کن ہے۔

انہوں نے کہا کہ انگلینڈ کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے کیا کِیا، انہوں نے ایک ایسے ملک کیساتھ جس نے مشکل وقت میں ان کاساتھ دیا، جس نے اس وقت وہاں کا دورہ کیا جب کوئی دوسری ٹیم وہاں جانے کیلئے تیار نہ تھی، پاکستان ایسے وقت انگلینڈ گیا جب وہاں کووڈ کی پابندیاں تھیں۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ اگر ایسا ان کے ساتھ ہوتا تو انکے احساسات کیا ہوتے