افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کو فنڈز اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی رہی ہے،اقوام متحدہ کی رپورٹ

169
United Nations
United Nations

اقوام متحدہ۔14فروری (اے پی پی):اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دی گئی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان سے لاجسٹک اور آپریشنل سپیس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لئے مالی مدد ملتی رہی ہے۔پابندیوں کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستانی سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کے خلاف ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا، جس میں متعدد اموات ہوئیں۔

اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان پر ٹی ٹی پی کے حملوں کے عزائم اور پیمانے میں رپورٹنگ کی مدت کے دوران 600 سے زیادہ حملے ہوئے جن میں وہ حملے بھی شامل تھے جن کے لئے افغان سرزمین استعمال کی گئی۔ ٹی ٹی پی نے افغانستان کے کنڑ، ننگرہار، خوست، اور پکتیکا (برمل) صوبوں میں نئے تربیتی مراکز قائم کئے ہیں اوراپنی افرادی قوت میں اضافہ کیاہے۔ ٹی ٹی پی، افغان طالبان اور القاعدہ کے درمیان تحریک جہاد پاکستان کے بینر تلے تعاون میں اضافے کی بھی اطلاعات ہیں ۔

رپورٹ میں کہا گیا خودکش بمباروں اور جنگجوؤں کی فراہمی اور نظریاتی رہنمائی کے حوالے سے ان گروپوں اور ٹی ٹی پی کے درمیان زیادہ تعاون ٹی ٹؔی پی کو ایک غیر علاقائی خطرے اور خطے میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کے لئے ایک چھتری تنظیم میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دو درجن سے زیادہ دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں جو افغانستان سے باہر عدم استحکام کا ایک مسلسل محرک ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی نے ملک کے استحکام کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاستوں کی سلامتی کے لئے بھی ایک سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے موسم گرما میں ایک کارروائی کے دوران داعش خراسان کے ہائی پروفائل ارکان کو کو گرفتار کر کے گروپ کو بڑھا دھچکا پہنچایا۔ان میں عادل پنجشیری (افغان)، ابو منذر (تاجک) اور کاکا یونس (ازبک) شامل تھے، جو جنگجوؤں اور خودکش بمباروں کی بھرتی، سفر اور فنڈنگ ​​میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔داعش خراسان کی قیادت نے اس کے بعد پرانے زمانے کے طریقوں کو الیکٹرانک اور انٹرنیٹ پر مبنی مواصلات کو کوریئرز کے نیٹ ورک کے ذریعے بدل دیا تاکہ کم سے کم روابط کے ذریعے گرفتاریوں سے بچا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق مجید بریگیڈ، بلوچستان لبریشن آرمی کے ایک سرشار ڈیتھ سکواڈ نے رپورٹنگ کی مدت میں کئی حملے کرنے کا دعویٰ کیا جن میں جانی نقصان ہوا۔اس بریگیڈ نے اپنی صفوں میں خواتین کو شامل کیا اور یہ گروپ پاکستان کے پورے جنوبی علاقے بشمول آواران، پنجگور اور دالبندین میں کام کرتاتھا ۔

رپورٹ کے مطابق مجید بریگیڈ نےٹی ٹی پی ، داعش خراسان اور ای تی آیم ایم ؍ ٹی آئی سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ روابط قائم رکھے۔ داعش خراسان افغان حکام، نسلی اور مذہبی اقلیتوں، اقوام متحدہ، غیر ملکی شہریوں اور افغانستان میں بین الاقوامی نمائندوں کے لئے سب سے سنگین خطرہ ہے۔داعش خراسان نے 11 دسمبر کو افغانستان کے قائم مقام وزیر خلیل احمد حقانی کی ایک خودکش بم دھماکے میں موت کی ذمہ داری قبول کی ۔ رپورٹ کے مطابق اس اقدام کا مقصد سکیورٹی فراہم کرنے میں طالبان کی ساکھ کو کمزور کرنا تھا۔گروپ نے اپنی صفوں میں دراندازی اور بدعنوانی سے خود کو بچانے میں طالبان کی ناکامی کا فائدہ اٹھایا ۔ اس گروپ نے شمالی افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک کو دھمکیاں دینے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا جاری رکھا۔

اس گروپ نے شمالی صوبوں میں طالبان کی حکومت کے خلاف تاجک نسل کے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی حمایت میں اضافہ کیا۔داعش خراسان کے خلاف طالبان کے دباؤ کے باوجود، خاص طور پر ہلمند اور قندھار صوبوں میں پوست کی کاشت پر پابندی سے متاثرہ کسانوں نے مبینہ طور پر جوابی کارروائی میں داعش خراسان کے جنگجوؤں کو پناہ فراہم کی۔ گروپ نے پورے خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، جبکہ افغانستان اس گروپ کی بھرتی اور سہولت کاری کا مرکزی مرکز بنا رہا، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس گروپ نے وسطی ایشیائی اور زیادہ تر تاجک شہری بھرتی کئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ۔القاعدہ نے غیر افغان نژاد علاقائی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جن میں ٹی ٹی پی ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان ای ٹی آئی ایم ؍ ٹی آئی پی ،جماعت انصار اللہ شامل ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ طالبان نے ایک ایسا ماحول برقرار رکھا جس سے القاعدہ کو محفوظ ٹھکانے اور تربیتی کمیپ قائم کر کے خود کو مضبوط کرنے کا موقع ملا۔