اسلام آباد۔4ستمبر (اے پی پی):افغانستان کی کاروباری برادری نے کہا ہے کہ افغانستان کو معاشی استحکام کےلئے دنیا کی مدد کی ضرورت ہے ۔افغانستان کی کاروباری برادری پاکستان کے ساتھ اپنی دوطرفہ اور افغان ٹرانزٹ تجارت کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے ۔پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر خان جان الکوزئی نے اے پی پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ملک ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعدتاجر برادری سسٹم اور اداروں کو فروغ دینا چاہتی ہے ۔۔انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں 47.5 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور جنگیں جاری رہنے سے ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
کاروباری برادری نے پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ مستقل مزاجی نظام پر لوگوں کا اعتماد قائم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا بہت آگے ہے اور ہر میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔الکوزئی نے کہا کہ افغانستان کی کاروباری برادری پاکستان کے ساتھ اپنی دوطرفہ اور افغان ٹرانزٹ تجارت کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے ۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کسٹم اور بینکنگ کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے۔اور کاسا 1000 ترکمانستان-افغانستان-پاکستان اور بھارت تائپے گیس پائپ لائن منصوبے تب مکمل ہو سکتے ہیں جب افغانستان میں امن اور استحکام بحال ہو۔
الکوزئی نے بتایا کہ مقامی تاجروں کے علاوہ پاک افغان جوائنٹ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے 1500 ارکان ہیں اور انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو ہموار طریقے سے چلانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔انہوں نے کہا کہ طورخم اور چمن بارڈرز اور کراچی بندرگاہ پر مزید سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ دوطرفہ تجارت کو بڑھایا جاسکے۔افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (اے ٹی ٹی اے) میں اگلے تین ماہ کی توسیع کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد اور کابل پر زور دیا کہ وہ سرحد کے دونوں اطراف کی متعلقہ کاروباری برادریوں اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک نئے ٹرانزٹ معاہدے کو دوبارہ تشکیل دیں۔
الکوزئی نے دو طرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے قواعد و ضوابط کو آسان بنانے پر زور دیا۔دریں اثناافغانستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر محمد یونس خان مومند نے کہا کہ طالبان قیادت نے تاجر برادری کو امن و سلامتی کی بحالی کی یقین دہانی کرائی ہے اور وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے پرامید ہیں۔اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امن اور استحکام کی بحالی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت میں اضافے کے وسیع امکانات ہیں۔2012 میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت 3 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن بعد میں سیکورٹی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ کم ہو کر ایک بلین ڈالر رہ گئی لیکن اب اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے اور اس کی درآمدات کی زیادہ سے زیادہ تعداد کراچی اور گوادر بندرگاہوں سے ہوتی ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بھی دوطرفہ تجارت کا بڑا فائدہ ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ درآمدات پاکستان سے آتی ہیں، افغانستان پاکستان سے برقی سامان ، سٹیل ، سیمنٹ ، اینٹیں ، کپڑے ، کنو ، کیلا اور دیگر خوردنی اشیاء درآمد کرتا ہے جبکہ افغانستان پاکستان کو تازہ اور خشک میوہ جات برآمد کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تجارت اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کیا جانا چاہیے کیونکہ دونوں ممالک اس کے جغرافیائی محل وقوع سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی افغانستان اور پانچ وسطی ایشیائی کے ممالک ، ازبکستان ، تاجکستان ، ترکمانستان ، کرغیزستان اور قازقستان کے ساتھ علاقائی روابط پر توجہ مرکوز کرنے کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوششیں ان ممالک کے لیے بڑی معاشی ترقی کا باعث بن سکتی ہیں۔تاہم انہوں نے افغانستان میں امن کو "سب سے اہم عنصر” قرار دیا تاکہ خوشحالی کے وژن کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔یونس خان مومند نے کہا کہ ایک بین الاقوامی مشترکہ سرحدی مارکیٹ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کی کاروباری برادری اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ماربل اور کان کنی کے شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کی بڑی گنجائش ہے. انہوں نے مزید کہا کہ طالبان قیادت نے تاجروں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فل پروف سیکورٹی کی ضمانت دی ہے۔