کابل ۔20جنوری (اے پی پی):طالبان کے سینئررہنما شیر عباس ستانکزئی نے عوامی سطح پر ایک خطاب میں اپنے سپریم لیڈر پر زور دیا ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں پر تعلیمی پابندی کو ختم کر دیں کیونکہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزارت خارجہ کے پولیٹکل ڈپٹی شیر عباس ستانکزئی نے یہ بات ہفتہ کو جنوب مشرقی صوبہ خوست میں ایک تقریر میں کہی۔ انہوں نے ایکمدرسے کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جیسا کہ ماضی میں اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور اب بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ افغان حکومت نے خواتین کو چھٹی جماعت کے بعد تعلیم سے روک دیا ہے۔ گذشتہ ستمبر میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ حکام نے خواتین کے لئے طبی تربیت اور کورسز کو بھی روک دیا ہے۔افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کا علاج صرف خواتین ڈاکٹرز اور صحت کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ حکام نے ابھی تک طبی تربیت پر پابندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔ شیر عباس ستانکزئی نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی ایک وڈیو میں کہا کہ ہم قیادت سے دوبارہ تعلیم کے دروازے کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم چار کروڑ کی آبادی میں سے دو کروڑ لوگوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں، یہ اسلامی قانون میں نہیں ہے بلکہ ہماری ذاتی پسند یا فطرت ہے۔
شیر عباس ستانکزئی ایک زمانے میں ان مذاکرات میں طالبان ٹیم کے سربراہ تھے جس کی وجہ سے افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا ہوا تھا۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں تعلیم کی مستحق ہیں۔ انہوں نے اسی طرح کے ریمارکس ستمبر 2022 میں بھی دیے تھے۔
کرائسز گروپ کے جنوبی ایشیا پروگرام کے تجزیہ کار ابراہیم بہیس نے کہا کہ شیر عباس ستانکزئی وقتاً فوقتاً لڑکیوں کی تعلیم کو تمام افغان خواتین کا حق قرار دیتے ہوئے بیانات دیتے رہے ہیں۔ابراہیم نے کہا کہ تاہم یہ تازہ ترین بیان اس لئے اہم ہے کہ وہ عوامی سطح پر پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور موجودہ نقطہ نظر کے جواز پر سوال اٹھا رہے ہیں۔