افغانستان میں نئی عبوری حکومت کی تشکیل: افغان عوام دیرینہ مسائل کے حل کے بےتابی سے منتظر

85

پشاور۔10ستمبر (اے پی پی):افغانستان میں نومنتخب وزیراعظم سینئر طالبان راہنماملا محمد حسن اخوند کی سربراہی میں 33رکنی عبوری کابینہ کے اعلان کے ساتھ ہی نئی حکومت کی تشکیل کا اہم مرحلہ مکمل ہو گیا ہے ،اس مرحلے کی تکمیل کے بعد اب افغان عوام بد امنی اور معاشی عدم استحکام سمیت اپنے دیرینہ مسائل کے حل کی راہ تک رہے ہیں تاکہ آنے والا وقت ان کی زندگیوں کو خوشحالی اور امن و آشتی سے ہمکنار کر سکے ۔

دفاعی اور بین الاقوامی امور کے ماہر ممتاز تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ نے’’ اے پی پی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جنگ زدہ افغانستان کو اس وقت متعدد سنگین مسائل کا سامنا ہے، انھوں نے کہا کہ نئی افغان عبوری حکومت ایک طرف سیکیورٹی صورتحال ، معیشت،ٹیکسیشن،گورننس،قومی اداروں کی تعمیر نو، نظام انصاف سمیت کئی حوالوں سے اندرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہے اور دوسری جانب اسے بین الاقوامی برادری اور عالمی مالیاتی اداروں بشمول ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا اعتماد حاصل کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں،

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے استحکام ،غیر ملکی سرمایہ کاروں کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے، عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے ، قومی اداروں بشمول افغان آرمی، پیراملٹری فورسز اور پولیس کی تشکیل نو اورنئی افغان حکومت کیلئے بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر طالبان قیادت کے عالمی طاقتوں بالخصوص ہمسایہ ممالک پاکستان ، روس،چین،ایران اور وسطی یایشیائی ریاستوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ ایک پرامن افغانستان بشمول پاکستان، ایران، چین، روس، وسطی ایشیائی ریاستیں اور خلیجی ممالک سمیت ہمسایہ ملکوں کے امن اور ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور امید ظاہر کی کہ تمام علاقائی ممالک آگے آئیں گے اور غریب افغان شہریوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے تیزی سے سرمایہ کاری کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت عالمی برادری افغانستان کو تنہا چھوڑ دیتی ہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں کیا، تو اس سے جنگ سے تباہ حال ملک میں شدید انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان شہری معیاری تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو ، صاف پانی تک رسائی، روزگار اور جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو کے لئے اندرونی سطح پر معاونت کے خواہش مند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی ذرائع ابلاغ طورخم میں افغان پناہ گزین کیمپوں کے بارے میں جھوٹے دعوے کرکے عالمی برادری اور اپنے عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔ بریگیڈیئر محمود شاہ نے کہا کہ کابل فتح ہونے کے بعد افغانستان سے کسی قسم کے بڑی تعداد میں شہریوں کی نقل مکانی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی پاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس جاتے دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی میڈیا نے حال ہی میں طورخم بارڈر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کسی قسم کے پناہ گزین کیمپ کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی اور اپنی طویل سرحد کی حفاظت کے لئے پاکستان کی طرف سے کئے گئے سیکیورٹی اقدامات کو سراہا۔ اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے "اے پی پی” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ2611 کلو میٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے، 388 نئے قلعوں کی تعمیر اور جدید ڈرون سے لیس نگرانی کے جامع تکنیکی نظام کی تنصیب اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کا 98 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جس سے دہشتگردوں کی نقل و حمل کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔

خیبرپختونخوا میں پاک افغان سرحد پر 827 کلومیٹر کے علاقے میں سے 802 کلو میٹر پر باڑ لگانے اور 443 نئے قلعوں میں سے 388 قلعوں کی تعمیر کا کام مکمل کرلیا گیا ہے اور باقی ماندہ 55 قلعوں کی تعمیر کا کام رواں سال دسمبر میں مکمل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے سرحد کے ساتھ ساتھ 346 کلومیٹر کے علاقے میں پٹرولیم ٹریکس کے قیام، سیکیورٹی سے متعلق واچ ٹاورز، پکٹیں، بنکرز، ٹریکس، ڈرون ریڈار، رات کو دیکھنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی، فوجیوں کی نفری کی تعداد میں اضافے اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی نگرانی کے آلات مغربی سرحد پر نصب کردیئے گئے ہیں تاکہ سرحد کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جاسکے۔

اسی طرح پاک ایران سرحد پر 48 فیصد باڑ لگانے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے ضم شدہ علاقوں میں فوج اور ایف سی کی مدد سے اربوں روپے کے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں جن میں خیبر، مہمند اور باجوڑ ایجنسی میں 3 ارب روپے کے منصوبے شامل ہیں۔

اسی طرح طورخم سرحد پر جوکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم تاریخی راستہ ہے، سہولتوں کی فراہمی بڑھا دی گئی ہے، جہاں تمام متعلقہ محکمے جن میں ایف آئی اے، نادرا، سول ایڈمنسٹریشن، پولیس، اے این ایف اور دیگر شامل ہیں، عوام اور تارکین وطن کو موقع پر خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

طورخم سرحد 24 گھنٹے فعال ہے جہاں مستند دستاویزات کے حامل عوام اور مال بردار ٹرکوں کی آمدورفت خوش اسلوبی سے جاری ہے۔ طورخم سرحد پر 726 کنال کے رقبے پر ایک مربوط ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم قائم کیا جارہا ہے جو 2023ء تک مکمل ہوگا۔ اس نظام کی تکمیل سے 10 ہزار مال بردار ٹرک اور 25 ہزار افراد یومیہ اس سرحد کو عبور کر سکیں گے جبکہ اس وقت 16سے 20 ہزار افراد اور 700 سے 900 کارگو ٹرک روزانہ کی بنیاد پر سرحد عبور کرتے ہیں۔

طورخم سرحد کو جدید تمام ضروری صحت کی نگہداشت کی سہولتوں سے بھی لیس کیا گیا ہے جہاں مسافروں کی کوویڈ 19 اور دیگر بیماریوں کی سکریننگ کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان عبوری حکومت کو مذکورہ ہمسایہ ممالک کے تمام تحفظات دور کرنا ہونگے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہو،کالعدم ٹی ٹی پی تاحال افغانستان سے کارروائیاں کر رہی ہے اور طالبان حکومت کو اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہوگی،انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں، پاکستان جس نے پچھلے 40سال سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو نہ صرف پناہ دے رکھی ہے بلکہ انھیں صحت ، تعلیم ، کاروبار اور دیگر شعبوں میں بے شمار سہولیات بھی مہیا کر رکھی ہیں افغانستان میں عدم استحکام اور خانہ جنگی کا کسی بھی صورت متحمل نہیں ہو سکتا ۔

بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جہاں طالبان نے وادی پنجشیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پورے ملک پر اپنی گرفت مستحکم کر لی ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ سیکیورٹی صورتحال بہتر ہو رہی ہے، انھوں نے کہا کہ افغانستان ایک کثیر نسلی مملکت ہے جہاں اشرف غنی کے دور حکومت میں ازبک ، تاجک ، ہزارہ اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اہم سرکاری عہدوں پر فائز تھے ، طالبان کو ان عناصر پر گہری نظر رکھنا ہوگی،

انھوں نے کہا امور مملکت کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے طالبان کو اہم سرکاری عہدوں پر اپنے با اعتمادساتھیوں کی تعیناتی عمل میں لانا ہو گی ، انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ افغان عبوری حکومت کے سربراہ ملا حسن اخوند جو ایک نہایت زیرک اور تجربہ کار شخص ہیں اپنی کابینہ کے دیگر اراکین بشمول ، ملا عبدالغنی برادر ، سراج الدین حقانی اور ملا عبدالسلام حنیفی وغیرہ کی مدد و اعانت سے درپیش چیلنجز پر قابو پا لینگے تاہم نئی افغان حکومت کو بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے وقت درکار ہوگا جو اسے ملنا چاہیئے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی شرمناک شکست کے بعد بھارتی میڈیا ہاوسز پاکستان کے خلاف بے سروپا اور بے بنیاد پرپیگنڈہ کر رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ افغان عوام نے 15اگست کو ”را۔این ڈی ایس ” گٹھ جوڑ کا خاتمہ کر کے غیر ملکی تسلط سے حقیقی معنوں میں آزادی حاصل کی ۔

محمود شاہ نے کہا کہ کابل کی فتح کے بعد ایک واضح پیغام ملا ہے کہ دولت اور طاقت سے آپ کسی مقصد کے لئے لڑنے والے کو نہیں خرید سکتے اور یہی وجہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی اور افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) ریت کی دیوار ثابت ہوئی کیونکہ ان میں تحریک ، لڑائی کی مہارت اور اپنی قابلیت پر اعتماد کا فقدان تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھارت کے واضح پیغام ہے کہ وہ اس ساری صورتحال سے سبق سیکھے اور کشمیر کے بارے میں اپنی منفی پالیسی سے دستبردار ہو اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں کئے گئے وعدوں کے مطابق حق خودارادیت دے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صورتحال ہر آنے والے دن کے ساتھ مختلف ہوگی کیونکہ امریکہ افغانستان میں چار عشروں سے جاری تنازعہ کے فوجی حل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، صحت تعلیم، معدنیات، زراعت اور افغان شہریوں کی سماجی و معاشی بہتری پر توجہ مرکوز کر رہاہے۔