ان خیالات کا اظہار چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر یوسف خشک نے پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ ”علامہ اقبال بین الاقوامی سیمینار “ میں ابتدائیہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ مجلس صدارت میں پروفیسر فتح محمد ملک اور پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر شامل تھے۔
پروفسیر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (لاہور)، ڈاکٹر معین الدین عقیل (کراچی ) اور ڈاکٹر حلیل طُوقار(ترکی )مہمانان خاص تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد العزیز ساحر، پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ لودھی اور پروفیسر ڈاکٹر علی بیات(ایران )مہمانان اعزاز تھے۔ڈاکٹر زاہد منیرعامر(لاہور)، پروفیسر ڈاکٹرارشاد شاکر اعوان(مانسہرہ)، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر(آزاد کشمیر)، ڈاکٹر عبد الرﺅف رفیقی(کوئٹہ)، ڈاکٹر محمد آصف،ڈاکٹر رمضان طاہر اور فرحانہ قاضی نے اقبال کے حوالے سے مقالات پیش کیے۔
نظامت ڈاکٹر شیراز زیدی نے کی۔ پروفیسرڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ ہمیں اقبال کی سوچ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ موجودہ دور میں مختلف چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کس طرح اقبال کے رہنما اصولوں سے استفادہ کر سکتے ہیں اور سماج کی بہتری کے لیے اُن کی تعلیمات کو کس طرح کارآمد بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج کا سیمینار انتہائی اہم ہے جس میں ہمارے ماہرین اقبال ،
اقبال شناسی کے حوالے سے معلوماتی گفتگو کریں گے۔ میں آپ تمام اہل قلم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس سیمینار میں شریک ہوئے ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یوم اقبال پر تقریبات منعقد کرنا اقبال کا حق ہے لیکن صرف تقریروں سے یہ مقصدپورا نہیں ہوسکتا جب تک ہم اقبال کی فکر تصورات اور تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ نہ بنائیں پاکستان کی تعمیر اور ترقی ممکن نہیں ۔
ہمیں اقبال کے مختلف شعبوںسیاسیات ، اقتصادیات ، سماجیات کے حوالے سے رہنما اصولوں کو از سر نو تنظیم اور ترتیب کے ساتھ عملی صورت میں اپنانے ہوں گے۔ 14اگست 1947سے قبل پاکستان نہیں تھا۔ اقبال کے خواب، تصورات اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔
آج ہم نے بانیانِ پاکستان کی تعلیمات یکسر بھلا دیں جس کی وجہ سے پاکستان ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکا۔ اقبال پاکستان میں اسلامی جمہوریت کے خواہاں تھے جس میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اقبال اور قائد کے افکار کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔
ڈاکٹر ایوب صابر نے کہا کہ علامہ اقبال اسلامی نشاة ثانیہ کے شاعر ہیں اور کسی بھی صورت نشاة ثانیہ کے تصور سے پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے ملت کا تصورخودی، اجتہاد اور تصور پاکستان پیش کیا۔ یہ سب اسلامی نشاہ ثانیہ میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر ایوب صابر نے کہا کہ اقبال نے کہا تھا کہ ایشیا ملت ہے اور افغانستان اس کا دل ہے۔ انہوں نے اقبال کی مشہور نظم”زمانہ“ کے چیدہ چیدہ اشعار سنائے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے کہاکہ ہم نے اقبال کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں لیکن جب تک ہم اقبال کی سوچ اور تصورات پر عمل نہیں کریں گے بحیثیت قوم ہم ترقی نہیں کر سکتے لہٰذا ہمیں اقبال کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہے اور اسی میں ہماری کامیابی ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہاکہ ہمیں تعلیمی اداروں اور نصاب کی سطح پر اقبال شناسی پیدا کرنی چاہےے تاکہ ہماری نئی نسل اقبال کی سو چ ، نظریات اور افکار سے آگاہی حاصل کر سکے۔ پروفیسر ڈاکٹر حلیل طُوقار نے کہا کہ اقبال کی شاعری نے ترک قوم پر گہرے اثرات مرتب کےے ہیں۔ ترکی میں کلام اقبال کے کئی تراجم ہوئے ہیں۔
ترکی کی یونیورسٹی میں بھی اقبال پر تحقیقی کام ہورہا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد العزیز ساحر نے اقبال کی معروف تصنیف”جاوید نامہ“ میں ”فلک مشتری پر اقبال“کا جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ اس کا تعلق حضورکی ذات اقدس ہے۔ اس میں اقبال تین معروف شخصیات سے مکالمہ کرتے ہیں۔
اس سے حضورکی ذات اقدس کے نئے نئے زاویوں اور اُن کی سوچ سے نئی نسل کو متعارف کرانا مقصود تھا۔ ڈاکٹر صوفیہ لودھی نے کہاکہ اقبال کی فکر کو سمجھنے کے لیے اُن کی شاعری کو از سر نو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے پیش نظر ہمیں یکجہتی اور اتفاق کی ضرورت ہے۔ یہ رہنمائی ہمیں اقبال کی فکر سے ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کے فارسی کلام کے تراجم ہونے چاہیے۔
ڈاکٹر علی بیات نے اقبال کی فارسی غزل کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اقبال اردو اور فارسی شاعری کے دبستان ہیں۔ انہوں نے مہارت سے اپنے فلسفے اور نظرےے کو شاعری میں بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی نے کہا کہ اقبال کی تمام شاعری میں افغانستان اور افغانوں سے محبت کا اظہار ملتا ہے کیوں کہ افغان دین اور مذہب سے عشق کرتے تھے اس لیے انہوں نے افغان ملت کو اپنی شاعری کا خاص موضوع بنایا۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے کہا کہ اقبال نے امت مسلمہ کو غلامی سے بیدار کرنے کے لیے ضابطہ اور نظام پیش کیا۔
مسلم نشاہ ثانیہ کے تصور کی صورت میں انہوں نے قوم کو نئے سرے سے جینے کا حوصلہ دیااور اُس کے سامنے نظام فکر پیش کیا۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے کہاکہ اقبال مفکر پاکستان خطبہ الہ آباد کی وجہ سے ہیں یہ بڑا اہم موضوع ہے ہماری نسل کو اس سے آگاہی ضروری ہے ۔
ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان نے کہا کہ اقبا ل نے مذہب کی حقیقت کو اُجاگر کیا اور آزاد اسلامی ریاست کا تصور پیش کیاجس میں اسلام اور مسلمان محفوظ اور مضبوط ہوں۔ ڈاکٹر محمد آصف نے کہا کہ اقبال کی درست تفہیم کر کے ہم ملکی اور بین الاقوامی مسائل حل کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر رمضان طاہر نے کہاکہ اقبال حضورﷺ کا نام سن کے آبدیدہ ہو جاتے۔ اقبال سچے عاشق رسول تھے۔ فرحانہ قاضی نے کہا کہ اقبال مثبت سوچ کے تحت کائنات کو فائدہ دینا چاہتے تھے۔