اقوام متحدہ اسرائیل فلسطین بحران کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہا، او ایچ سی ایچ آر کے سربراہ نے عہدے سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا

88
Gaza

نیویارک۔1نومبر (اے پی پی):نیویارک میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کے ڈائریکٹر کریگ موخیبر نے اسرائیل فلسطین بحران کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں اقوام متحدہ کی ناکامی پر اپنے عہدے سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ۔

روسی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اقوام متحدہ کی ذمہ داری تھی تاہم یہ ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے اقوام متحدہ نے امریکا کی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اورایک ایسے وقت میں اسرائیلی لابی کے مقابلے میں شکست تسلیم کر لی جب فلسطین میں آبادکاری کا یورپ کا نوآبادیاتی منصوبہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔

کریگ موخیبر نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ ایک بار پھر فلسطینیوں کی نسل کشی ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں اور ہم جس عالمی ادارے کے لئے کام کرتے ہیں وہ اسے روکنے کے لیے بے بس نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔انہو ں نے کہا کہ اسرائیل فوج کے ہاتھوں فلسطینی عوام کا بڑے پیمانے پر قتل عام جس کی جڑیں نسل پرستانہ آبادکاری کے نوآبادیاتی نظریے میں پیوست ہیں کے نسل کشی ہونے میں شک اور بحث کی کوئی گنجائش نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور یورپ کے اکثر ممالک کی حکومتیں غزہ میں جاری اسرائیل کی خوفناک فوجی کارروائی کو روکنے میں نہ صرف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ وہ اسرائیلی افواج کو سرگرمی سے مسلح کرنے، اسرائیل کو اقتصادی امداد فراہم کرنے ، اس کی مسلح افواج کو خفیہ معلومات فراہم کرنے اور اسرائیل کے مظالم کو سیاسی اور سفارتی تحفظ دینے میں مصروف ہیں۔ کریگ موخیبر نے کہا کہ مغربی کارپوریٹ میڈیا اس سارے عمل میں مذکورہ ممالک کی بھر پور معاونت کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو نسل کشی میں سہولت فراہم کرنے کے لئے مسلسل انہیں غیر انسانی سطح تک لے جا رہا ہے اور جنگ اور قومی، نسلی یا مذہبی منافرت کی وکالت کے لیے پروپیگنڈا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اصولوں کی پاسداری اور اختیارات کا استعمال اقوام متحدہ کے وہ بنیادی عناصر تھے جن کا اظہار اس عالمی ادارے نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کی لہر کے دوران کیا لیکن گزشتہ برسوں میں اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ اپنے ان بنیادی عوامل سے دستبردار ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ بار بار نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہا ہے اور روانڈا اور بوسنیا اورمیانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا سلوک اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حالیہ دہائیوں میں اقوام متحدہ کے اہم اداروں نے امریکی طاقت اور اسرائیل لابی کے خوف کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور ان اصولوں کو ترک کر دیا ہے جن پر یہ قائم تھا اور خود بین الاقوامی قانون پر عملدرآمد سے پیچھے ہٹ گیا ۔

اس سب کے نتیجے میں اب اقوام متحدہ کی کوئی ساکھ نہیں لیکن ہماری ناکامیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان فلسطینی عوام کو ہوا ہے ۔اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو حالیہ دنوں میں دنیا بھر کے شہروں میں لوگوں کی طرف سے ظاہر کئے گئے اصولی موقف سے سیکھنا چاہیے جس میں ان شہروں کے عوام کی بڑی تعداد نسل کشی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے ایسا انہوں نے اپنی حکومتوں کی طرف سے پولیس کے ذریعے تشدد اور گرفتاریوں کے خطرے کے باوجود کیا ہے۔ انہوں نےاقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے فریب کو ترک کر دے اور علاقے میں فلسطین کی واحد جمہوری اور سیکولر ریاست کے قیام کی حمایت کرے جو اسرائیل کے نسل پرستانہ اور نوآبادیاتی منصوبوں کو خود ہی خاک میں ملا دے گی